قصے چند فراڈیوں کے ۔۔۔ معاذ بن محمود

ہفتے کا دن میرے جگری دوست ڈاکٹر علی کے لیے مختص تھا۔ علی کی آمد کے بعد ایک گھنٹہ ہم نے نئی حکومت کے نئے لطیفوں پر صرف کیا۔ ان شگوفوں پر شاید پونے چار گھنٹے مزید لگائے جاسکتے تھے کہ بیگمات نے کھانا لگا دیا۔ ہم نے خوب جاں فشانی سے افغانی پلاؤ اور چکن کڑاہی پھوڑی اور پھر کافی کے ساتھ کچھ مزید باتیں کرنے کے بعد ایک آدھ گھنٹہ قیلولے کا قصد فرمایا۔ ابھی میں اپنے کمرے میں پہنچ کر کمر سیدھی کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ علی نے باہر بلا لیا۔ پھر جو ہوا وہ دلچسپ کہانی ہے۔ 

علی کی ایک انتہائی قریبی عزیزہ جو قریب ہی رہائش پذیر تھیں، نے دو دن پہلے ایک ایوینٹ میں ایک کمپنی کو تیس ہزار درہم کی رقم دے ڈالی۔ یہ رقم ایک ڈیل کے تحت دی گئی جس کے بعد خاتون اور ان کی فیملی دنیا بھر کے تین چار سو فائیو سٹار ہوٹل اور ریزورٹس کی آسائشیں محض سو درہم کے عوض حاصل کر پائیں گی۔ یہ ایک جعلسازی پر مبنی سکیم تھی جس کا قانونی سقم یہ تھا کہ جب تک آپ روس کے فلاں ہوٹل پہنچ کر کمپنی کی ڈیل آزمائیں گے نہیں آپ کو معلوم کیسے ہوگا کہ یہ دھوکہ ہے یا نہیں؟ اماراتی ہوٹل میں تیس ہزار درہم اینٹھنے کے بعد ایک آدھ دن کی ریزرویشن دینا کوئی اتنی بڑی بات نہیں لہذا پکڑے جانا ناممکن نہ سہی کم از کم وقت اتنا ضرور لے گا کہ انہیں بھاگ نکلنے کا موقع مل جائے۔ متاثرہ خاتون حیران تھیں کہ انہوں نے ایوینٹ کے دوران کس طرح اس قسم کی غیر مبہم ڈیل کے لیے اتنی رقم کی ادائیگی کیسے کر ڈالی۔ ان کے بقول ایوینٹ کے دوران کمپنی کے نمائندوں نے اس قدر خوبصورتی اور مہارت سے اس ڈیل کے فائدے بتائے کہ ان سے ناں ہو ہی نہ پایا۔ 

یہ ایک مشکل سے سمجھ میں آنے والی بات تھی۔ شاید کسی قسم کا نفسیاتی حربہ یا ہیپنوسس کا استعمال کیا گیا ہو، یا کسی اور طریقے سے رقم ادا کرنے کی رضامندی حاصل کر لی گئی ہو، تاہم ایوینٹ کے مقام سے باہر نکلتے ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔

اماراتی آئین میں غالباً یہ قانون موجود ہے کہ صارف کوئی بھی خریدی ہوئی چیز ایک مخصوص مقررہ وقت کے اندر ایک خاص پینلٹی کے ساتھ (یا شاید بغیر بھی) واپس کرنے کا حق رکھتا ہے۔ میں قانونی ماہر تو نہیں لیکن پھر بھی مجھے محسوس ہوا کہ خاتون یہ استحقاق رکھتی ہیں۔ تیس ہزار درہم بہرحال ایک رقم ہے لہذا کسی کا اتنا نقصان ہمدردیاں پیدا کرنے کے لیے کافی تھا، خاص کر جب متاثرہ خاتون لنگوٹیے علی کی عزیزہ بھی تھیں۔ 

ہم نے فیصلہ کیا کہ مذکورہ کمپنی کے نمائیندگان سے بات کی جائے۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ اسی دن شام تک اس کمپنی کا ایک اور ہوٹل میں یہی ایوینٹ منعقد تھا۔ ہم نے تمام تر کاغذات و دستاویزی ثبوت اٹھائے اور خاتون کو ساتھ لیے ہوٹل کے کانفرنس روم کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں چند دوستوں کو فون بھی ملائے اور مسئلے کے قانونی نکات کی بابت رائے لی، اور متعلقہ اداروں اور حکام کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں۔ اس کے علاوہ ہوٹل پہنچنے تک ہم یہ منصوبہ بندی بھی کر چکے تھے کہ علی نے ایک سخت گیر، غصہ ناک پر لیے گھومنے والے short tempered شخص کا کردار ادا کرنا ہے، متاثرہ خاتون نے جذباتی کردار ادا کرتے ہوئے کمپنی کے نمائیندگان کی ہمدردی حاصل کرنی ہے اور میں نے ٹھنڈے مزاج والے بندے کی حیثیت سے معاملات ایک حد سے باہر جانے سے روکنا ہے۔

ہوٹل کے کانفرنس روم پہنچنے پر ہمیں باہر کھڑے گارڈ نے روکنے کے لیے مخاطب کیا لیکن ہم بہرے بنے اندر ہال میں پہنچ گئے۔ ہال میں کئی معصوم خاندان بکرے بکریاں بننے میں مصروف تھے۔ انہیں دیکھ کر دکھ ہوا کہ ان میں سے کئی آج کل میں اپنا پیسہ حسین خواب دیکھنے کے بعد لٹا چکے ہوں گے اور بعد میں پچھتاوا انہیں ڈراتا پھرے گا۔ پھر ان میں سے اکثر بھی حقیقت کو رد کرنے کے لیے معاملہ قسمت پر ڈال دیں گے یا کسی اور پر لیکن یہ ماننے میں توقف ضرور دکھائیں گے کہ جذباتیت اور کسی حد تک ایک خوبصورت فلمی سین کی لالچ میں یہ لوگ دماغ سے سوچنا بھول گئے تھے۔ 

خیر، اندر پہنچ کر ہم ایک خالی میز کے گرد بیٹھ گئے اور اس وقت کے ذمہ دار افسر کو بلایا۔ دو افراد ہمارے ساتھ میز پر بیٹھ گئے جن کے نام راہول اور سنجیو تھے۔ ہم نے پیار سے بات شروع کی کہ ہماری کچھ مجبوریاں ہیں جن کے باعث ہم ان کی سروسز سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں لہذا ہمارے ہیسے واپس کیے جائیں۔ پہلا جواب یہ ملا کہ ویسے تو یہ ڈیل ناقابل واپسی ہے لیکن ہم کل تک آپ کی رقم کا کچھ فیصلہ کرتے ہیں۔ یہاں علی نے سخت لہجے کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ بھائی رقم تو ہم لے کر جائیں گے اور وہ بھی ابھی۔ ہمارے ساتھ خاتون نے نفسیاتی حربے کے طور پر ہال میں موجود مختلف فیملیز کے پاس چکر لگانے شروع کر دیے جس سے کمپنی کے نمائیندگان خوفزدہ ہوگئے کہ یہ ہماری اصلیت کھول دیں گے۔ دوسری جانب علی نے سخت لہجے میں کچھ تیز آواز سے بات کرنی شروع کر دی کہ یہاں موجود فیملیز ہرگز کمرہ نہیں چھوڑیں گی جب تک ہمیں ہماری رقم واپس نہیں ملتی۔ اس پر سنجیو نے ذرا تیز آواز میں جواب دینے کی کوشش کی تو میں نے بھی آواز بلند کر دی۔ اب ہال میں موجود فیملیز ہماری جانب متوجہ ہو چکی تھیں جس پر ہمیں اطمینان ہوا کہ چلو ہم نے انہیں معاملے کا اندازہ لگانے کے لئے کچھ ہنٹ تو دے ہی دیے۔ 

آخرکار دونوں بندے چند فون ملانے کے بعد رقم واپس کرنے کی حامی بھر بیٹھے۔ پہلی شرط یہ تھی کہ ہم سب کو فلاں دفتر میں جانا ہوگا۔ یہ شرط ہم نے سیدھی سیدھی خارج الامکان قرار دے ڈالی کہ نہیں جو دینا ہے یہیں دو۔ اب ہم بہادر ہو چکے تھے۔ خوف صرف اتنا تھا کہ یہ لوگ سیکیورٹی کو بلا کر ڈرامہ نہ کھڑا کر دیں، یعنی غالبا وہی خوف جو ہمیں تھا۔ بہرحال سختی سے بات کرنے پر یہ لوگ مان گئے کہ یہیں رقم واپس کرتے ہیں مگر دو گھنٹے لگیں گے۔

اس پر علی پولیس کو بلانے کی دھمکی دے کر نیچے ہوٹل سیکیورٹی کے پاس نکل پڑا۔ اب میز پر صرف میں بچا تھا۔ علی کی عزیزہ کچھ دور ایک ایک کر کے کمپنی کے لوگوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔ ارد گرد لوگ موجود تھے جن میں اکثریت بھارتی شہریوں کی تھی۔

اتنے میں مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے فون اٹھا کر اپنے ایک اور دوست ارشد کو فون ملایا۔ ہم دونوں کو پشتو آتی تھی لہذا پشتو میں تمام معاملہ واضح کر دیا، اور ساتھ ہی ساتھ جان بوجھ کر پولیس، سی آئی ڈی (اماراتی خفیہ ایجنسی)، شرطہ، فراڈ، سکیم، جیل وغیرہ کے الفاظ اردو اور انگریزی میں استعمال کرنا شروع کر دیے۔ کال ختم ہوئی تو میں نے سنجیو سے پوچھا ہاں بھائی کیا ارادہ ہے؟ جواب آیا بس بندہ بینک میں ہے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ سنجیو سچ بول رہا ہے۔ اگلے نصف گھنٹے میں نے اسی قسم کی تین کالز اور ملائیں اور پون گھنٹے تک ہماری رقم ہمارے ہاتھ میں تھی۔ 

واپسی پر تمام راستے ہم اپنی غلطی یعنی پیسے دینے پر بات کرتے آئے۔ میں اور علی اس بات پر متفق تھے کہ غیر منطقی بغیر دلائل سبز باغ اور ایک اچھے مستقبل کی منظر کشی کرنے کے نتیجے میں ذہن سازی کے بعد اپنے وعدے پورے نہ کرنا دراصل فراڈ ہی ہے۔ سیاحتی کمپنی کی دو نمبری یہی تھی کہ موقع پڑنے پر جو سہولیات ہمیں دینے کے پابند تھے، وہ نہ دے پاتے۔ سبز باغ دکھا کر جھنڈی دکھا دینا، یہ کلاسیکل فراڈ ہی تو ہے۔ ٹریول ایجنٹ آپ سے امریکی ویزے کے لئے لاکھوں روپے لے کر ویزہ دینے کی بجائے یہ کہے کہ امریکہ یہ ویزہ نہیں دے رہا لہذا اب خاموشی سے آنسو بہا کر سوجاؤ، تو شاید یہ فراڈ ہی کے زمرے میں آئے گا۔ امریکہ کب کہتا ہے کہ لو بیٹا ویزہ لے لو۔ اب ہمارے کیس میں متاثرہ خاتون جو دو راتوں سے سو بھی نہ پائی تھیں، اگر الٹا کمپنی کے حق میں دلائل دینا شروع کر دیتیں تو یہ یقیناً ایک مضحکہ خیز بات ہوتی۔ اسی طرح ٹریول ایجنٹ کے ہاتھوں لٹنے والا غریب، ایجنٹ کی تاویلات پہ ایمان لاتے اپنی بیوقوفی کو چھپانا شروع کر دے، اپنی جھینپ مٹانا شروع کر دے تو اس سے بڑا احمق بھلا کون ہوگا؟

دوستوں، ایسا ہے کہ روپیہ، درہم، ڈالر اور پاؤنڈ ان سب سے بڑی کرنسی وقت ہے۔ وقت کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے آنے والے وقت کو جانتے بوجھتے ضائع کرنے والے، پھر اس کے بعد اپنی بیوقوفی کے دفاع میں تاویلیں دینے اور الٹا نقصان پہنچانے والے کی وکالت کرنے والے لوگ کائنات کے احمق ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ 

اور اس لحاظ سے میں احمقوں کی جنت کا شہری ہوں۔

میرے دیس کے اکثر لوگوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ نے لینے، سیاست میں جوان خون کو آگے لانے، کرپشن کرنے والوں کو ساتھ بٹھانے کی بجائے ان کا تیا پانچہ ایک کرنے جیسے حسین خواب دکھانے والوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب کیا اور آج پوری قوت سے ان کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

دوستوں، میں احمقوں کی جنت کا شہری ہوں۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply