پہیلیاں (76)۔۔وہاراامباکر

ایک پرانی پہیلی ہے۔ ایک شخص صبح سویرے ایک پہاڑی چوٹی پر طرف جاتا ہے۔ پہاڑ تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے جو بل پیچ کھاتا ہوا پہاڑ پر لے کر جاتا ہے۔ وہ سورج غروب ہونے کے وقت چوٹی پر پہنچ جاتا ہے۔ اگلی صبح وہ واپسی کا سفر کرتا ہے اور اسی راستے سے واپس سورج غروب ہوتے وقت واپس پہنچ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس راستے میں کوئی ایسا مقام ہے جس میں وہ دونوں دن عین ایک ہی وقت پر موجود ہو؟ اس میں ہم نے اس مقام کی شناخت نہیں کرنی، سوال صرف اتنا ہے کہ کیا ایسا کوئی مقام ہے یا نہیں۔

یہ اس طرح کی پہیلی نہیں جس میں کوئی پوشیدہ انفاریشن ڈھونڈنی ہو، کسی trick پر منحصر ہو یا کسی لفظی ہیرپھیر سے اس کا جواب مل جائے۔ اس میں اس شخص اترنے یا چڑھنے کی رفتار جاننے کی ضرورت نہیں۔ کوئی ایسی انفارمیشن نہیں جس کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ یہ سیدھا سوال ہے۔ اس پر تھوڑی سے دیر کے لئے غور کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پہیلی کو حل کرنے میں آپ کی کامیابی کا انحصار اسی خاصیت پر ہے جو سائنسدان زمانوں سے فطرت کے سوالات کے جوابوں کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔ صبر، استقلال اور تخیل۔ لیکن اس سے بڑھ کر وہ چیز جس کے بارے میں ہر اچھا سائنسدان بہت اچھی طرح سے جانتا ہے۔ اس کے جواب کا انحصار اس پر ہے کہ کیا آپ ٹھیک سوال پوچھ سکتے ہیں؟ مسئلے سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر تصویر کو دیکھنے کا زاویہ تھوڑا سا بدل سکتے ہیں؟ ایک بار یہ کر لیں تو اس کا جواب بہت آسان ہے۔ مشکل چیز نگاہ کا وہ زاویہ ڈھونڈنے کا مسئلہ ہے جو اس مسئلے کو آسان بنا دے۔

اور یہ وہ وجہ ہے، جس وجہ سے نیوٹن کی فزکس اور مینڈالیو کا پیرئیوڈک ٹیبل اور آئن سٹائن کی ریلیٹیویٹی کی تخلیق کے لئے وہ بلندقامت ذہن اور ساتھ کچھ اوریجنل سوچ چاہیے تھی۔ اور جب ان کی ایک بار ٹھیک وضاحت ہو گئی تو آج کالج میں فزکس اور کیمسٹری کا طالب علم انہیں آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ ایک مسئلہ جو ایک نسل کے دماغ کی چولیں ہلا دیتا ہے، اگلی نسل کے لئے عام نالج ہوتا ہے۔ اور یوں ہم سائنس کی نئی بلندیوں کا سفر کرتے رہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پہیلی کو حل کرنے کا ایک آسان طریقہ ہے۔ بجائے اس کے، کہ ہم ذہن میں تصویر بنائیں کہ وہ شخص ایک روز پہاڑ چڑھ رہا ہے اور پھر اگلے روز نیچے آ رہا ہے، ہم ایک سوچ کا تجربہ کر لیتے ہیں۔ یہ تصور کر لیتے ہیں کہ دو الگ اشخاص ہیں، ایک اوپر جا رہا ہے اور دوسرا اسی روز نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ دونوں صبح ہوتے ہی نکلتے ہیں۔ اب اس منظرنامے میں ظاہر ہے کہ راستے میں ان دونوں کی مڈبھیڑ ہو گی۔ اور یہ وہ جگہ ہے جہاں پر پہیلی والا شخص دونوں دن میں ایک ہی وقت میں یہاں پر ہو گا۔ اس لئے پہیلی کا جواب “ہاں” میں ہے۔

وہ شخص اترتے اور چڑھتے ہوئے ایک ہی وقت عین ایک جگہ پر ہو؟ اس پر ایک غیرمعمولی اتفاق کا گمان ہو سکتا ہے لیکن ایک بار جب ہم اپنا ذہن آزاد کر لیں اور اس میں ایسے تخیل کو جگہ دے سکیں جس میں یہ دو شخص بن جائیں تو ہمیں آسانی سے پتا لگ جاتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں تھا، یہ ناگزیر ہے۔

دو جمع دو چار جیسی بند اور میکانیکی سوچ نے نہیں، بلکہ انسانی فکر کی ترقی تخیل نے ممکن کی ہے۔ اس کی مدد سے کوئی دنیا کو ذرا سی الگ نظر سے دیکھنے کے قابل ہوا۔ گلیلیو نے تصور کیا کہ اشیا ایک فرضی دنیا میں نیچے گر رہی ہیں جہاں ہوا کی فرکشن نہیں۔ ڈالٹن نے تصور کیا کہ اگر عناصر نہ دیکھنے جانے والے ایٹموں سے بنے ہوتے تو ملکر مرکب کیسے بناتے۔ ہائیزنبرگ نے تصور کیا کہ ایٹم کی دنیا عجب قوانین پر قائم ہے جو روزمرہ کے قوانین سے کچھ بھی مطابقت نہیں رکھتے۔ تخیل کی اس دنیا میں ہمیں خبط بھی ملتے ہیں اور بصیرت بھی ۔۔۔ اور کبھی دونوں اس بری طرح الجھے ہوئے کہ یہ پہچان بھی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن مفکرین کی لمبی پریڈ، ان کی اوریجنل سوچ، اور نیا سوچنے کی جرات کی وجہ سے ہماری اس کائنات کی سمجھ اس مقام تک آئی ہے جہاں ہم آج ہیں۔

اگر آپ نے یہ سیریز پڑھی ہے اور اگر مجھے کچھ سمجھانے میں کامیابی ہوئی ہے تو آپ کو فزیکل دنیا کے بارے میں انسانی فکر کی جڑ کا اندازہ ہوا ہو گا۔ اس قسم کے سوالوں کا جن کی تلاش میں ہم رہے ہیں۔ تھیوریوں اور تحقیق کی نیچر کا۔ اور ان سے زیادہ اس بات کا کہ کلچر اور اجتماعی فکر کے نظام ہم میں سے ہر ایک کی سوچ پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس سیریز کا فوکس سائنسدانوں اور دوسرے innovators کی سوچ کے طریقے پر تھا۔ لیکن یہ ہمارے آج کے سماجی، پروفیشنل، کاروباری اور اخلاقی مسائل کو سمجھنے کے لئے بھی اہم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے، سقراط نے کہا تھا کہ ایک شخص جو اپنی زندگی بغیر فکر کے گزار دے، ایسے کمہار کی طرح ہے جس نے اپنے فن کو ٹھیک طرف سے کیا ہی نہیں۔ برتن بنانا آسان کام لگتا ہے لیکن ایسا نہیں۔ سقراط کے وقت میں اس کے لئے ایتھنز کے جنوب میں ایک جگہ سے مٹی حاصل کرنی ہوتی تھی۔ اس کو خاص پہیے پر رکھنا ہوتا تھا۔ ٹھیک ٹھیک رفتار میں اسے گھمانا ہوتا تھا جس کا انحصار اس پر تھا کہ جو چیز بنائی جا رہی ہے، اس کا قطر کیا ہے۔ اور اس کے بعد اس کو سپنج کرنا، ملائم کرنا، برش کرنا، اس پر روغن کرنا، خشک کرنا، آگ میں دو بار گرم کرنا اور ہر بار ٹھیک درجہ حرارت اور نمی پر کرنا۔ ان میں سے کسی بھی چیز کو ٹھیک نہ کیا جائے تو برتن غلط شکل کا، دراڑ والا، بے رنگا اور بدصورت بنتا تھا۔ سقراط کا کہنا تھا کہ طاقتور سوچ بھی ویسا ہی فن ہے اور یہ بھی ویسی ہی مہارت سے کیا جانے والا کام ہے۔ اور جو اسے ٹھیک نہیں کرتے، ان کی زندگی بھی ویسی ہی بے ڈھنگی یا پھر دراڑوں والی ہوتی ہے۔

ہم میں سے کم ہی کوئی ایٹم کی سٹڈی کرتا ہے یا سپیس اور ٹائم کی نیچر کی، لیکن ہم میں سے ہر کوئی دنیا کے بارے میں اپنی تھیوریاں رکھتا ہے اور یہ اس کی کام کرنے اور کھیل کود سے لے کر سرمایہ کاری کرنے اور کھانے پینے اور زندگی کے اطمینان کے لئے بھی راہنمائی کرتی ہیں۔ اور کسی بھی مفکر کی طرف، ہم سب کو زندگی میں innovation کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رات کا کھانا کیسے بنایا جائے جب وقت اور توانائی نہیں۔ اپنی پریزنٹیشن کیسے دی جائے جبکہ اپنے نوٹس گم ہو گئے ہیں یا کمپیوٹر خراب ہو گیا ہے۔ یا پھر یہ فیصلہ کرنا کہ اپنے ماضی کے کسی ذہنی بوجھ کو کب اتارا جائے اور کس وقت میں اپنی ان روایات کی حفاظت کی جائے جو زندگی کے لئے ضروری ہیں۔

خواہ ہم خود کو مفکر نہ بھی سمجھیں، زندگی ہم سب کو ویسے ہی انٹلکچوئل چیلنج دیتی ہے جو مفکرین کو پیش آتے رہے ہیں۔ اور اس ایڈونچر میں سے جو سبق سیکھنے والا ہے، وہ بڑے مفکرین کی مشترکہ خاصیتیں ہیں۔ زندگی کی طرف لچکدار رویہ، ہٹ کر سوچنے کی ہمت، صبر، ذہن بدلنے کی صلاحیت اور faith ۔۔۔ جس کے سہارے لمبی چھلانگ لگائی جا سکے کہ ہمارا سفر ختم نہیں ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply