پردہ اور ہمارا معاشرہ….سکندر پاشا

ہمارے ہاں شدت پسندی کا کوئی معیار نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، چاہے وہ کسی بھی حوالے سے ہو۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں نئی قائم کی گئی حکومت کے تحت کابل یونیورسٹی کی طالبات نے حجاب کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا۔ جس پر مغربی میڈیا نے منفی رپوٹنگ کرکے عورت کو قید کرنے کا نعرہ بلند کیا تو وہیں ہمارا ایک مہربان طبقہ بھی مغربی میڈیا کو تن تنہا یہ جنگ لڑنے کے بجائے ان کے شانہ بشانہ لڑنے لگا۔ یہ آزاد خیال طبقہ کہنے لگا کہ “اسلام میں حجاب کا تصور ہی نہیں ہے؛ جبکہ افغان اپنا کلچر رکھتے ہیں اور اس طرح کا حجاب قومی کلچر کے بھی خلاف ہے”۔ گویا آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ طبقہ اسلامی تہذیب و تعلیمات کو افغان کلچر کا متصادم ثابت کر رہا ہے؛ جبکہ یہ بات سمجھنے میں ان کیلئے مشکل ہے کہ افغان کلچر الگ ہے، اسلامی تعلیمات الگ ہیں۔ کسی مسلم قوم کے ہاں کلچر سے زیادہ اسلامی تعلیمات کی اہمیت ہونی چاہئے۔
ایسے لوگ شاید احکامات خداوندی اور رسول کریم ﷺ کی احادیث کو یا تو سمجھتے نہیں یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔اس وقت پوری دنیا میں جنسی جرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے جتنے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، صورت حال اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ فحاشی بڑھنے سے خاندانی نظام متاثر ہوتا ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں کیا حکم دیا گیا ہے۔دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے کسی بھی مسلمان پر اسلامی قوانین کا نفاذ ہوتا ہے اور ان سے روگردانی ہی کو گناہ کہا گیا ہے۔ کسی مسلمان کے شایان شان نہیں کہ باوجود اس کے کہ اسلام میں پردے کی اہمیت واضح کی گئی ہے اور وہ اس کے ایک شرعی حکم ہونے کا انکار کرے۔

بحیثیت مسلمان ہم میں سے اکثر یہ تو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کو ضروری نہیں سمجھتے۔ جبکہ آج سے کچھ عرصہ پہلے تو پردے کا یہ عالم تھا کہ خواتین تو کیا مرد بھی سر پر پگڑی یا ٹوپی لازمی پہنتے تھے اور ایسا نہ کرنا گناہ اور بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔ اب کیا ہوا کہ مرد و عورت دونوں سر ڈھانپنے اور پردہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ بلکہ ایسا کرنے والوں کو دقیانوسی اور غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔قرآن و حدیث میں پردے کی اہمیت بابت بےشمار آیات اور کثیر صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں۔ جس سے پردے کی اہمیت کا شرعی ہونا بالکل واضح ہے۔
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ يُّعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞
ترجمہ:اے نبی اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی چادریں نیچی کرلیا کریں، اس سے جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی، اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ الأحزاب، آیت نمبر ۵۹.)

مفسرین نے لکھا ہے کہ رات کے وقت (جب گھروں میں بیت الخلاء نہیں بنائے گئے تھے) عورتیں قضائے حاجت کے لیے کھجور کے باغوں میں نشیبی علاقوں میں جایا کرتی تھیں. ان میں حرائر (آزاد) عورتیں اور اماء (باندیاں) دونوں ہوتی تھیں۔ منافقین اور بد نفس لوگ راستوں میں کھڑے ہوجاتے اور عورتوں کو چھیڑتے تھے۔ یعنی اشارے بازی کرتے تھے۔ ان کا دھیان عموماً باندیوں کی طرف ہوتا تھا۔ اگر کبھی کسی آزاد عورت کو چھیڑتے اور اس پر گرفت کی جاتی، تو کہہ دیتے تھے کہ ہم نے یہ خیال کیا تھا کہ شاید وہ باندی ہے۔ نیز دشمنان اسلام (جن میں مدینے کے رہنے والے یہودی بھی تھے اور منافق بھی) یہ حرکت بھی کرتے تھے کہ مسلمانوں کے لشکر میں جب کہیں جاتے تو لوگوں میں رعب پیدا کرنے والی باتیں پھیلاتے اور شکست کی خبریں اڑا دیتے اور خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے یوں کہتے تھے کہ دشمن آگیا دشمن آگیا۔

آیات بالا میں اول تو یہ حکم دیا کہ اپنی عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں۔ ارشاد فرمایا (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلِّ اَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ) (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مومنین کی عورتوں سے فرما دیجیے کہ اپنی بڑی بڑی چادریں جو اتنی چوڑی چکلی ہوں۔ جس میں عورت سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو لپیٹ سکے، اپنی ان چادروں کا ایک حصہ اپنے اوپر ڈال لیا کریں) یعنی سر بھی ڈھکے رہیں اور چہرے بھی اور سینے بھی۔ جب پردہ کا یہ اہتمام ہوگیا تو آزاد عورتیں اور باندیاں الگ الگ پہچانی جاسکیں گی کیونکہ کام کاج کے لیے نکلنے کی وجہ سے باندیوں کو چہرہ ڈھانکنے کا حکم نہیں ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے (یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے سروں کو اور چہروں کو بڑی بڑی چادروں سے ڈھانکے رکھا کریں۔ صرف ایک آنکھ کھلی رہے، جس سے چلنے پھرنے اور دیکھنے بھالنے کی ضرورت پوری ہوجائے اور پورا پردہ کرنے کی وجہ سے آزاد عورتوں اور باندیوں میں امتیاز ہوجائے۔ تاکہ بد نفس چھیڑ چھاڑ نہ کرسکیں۔ گو باندیوں کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرنا ممنوع تھا لیکن آزاد عورتوں کو پورے پردہ کا حکم دینے سے ان بد نفسوں کا یہ بہانا ختم ہوگیا کہ ہم نے باندی سمجھ کر آوازہ کسا تھا۔ (روح المعانی ج ۲۲: ص ۸۹).

مرد و عورت دونوں کو بے پردگی، فحاشی اور بے حیائی سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ آج جنسی جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور جو کچھ ہورہا ہے، یہ سب بے پردگی اور فحاشی ہی کا شاخسانہ ہے۔ جبکہ یہ بات یقینی ہے کہ جس کام سے بھی اﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، اس میں ہماری ہی بھلائی ہے؛ لیکن ایک مسلمان کیلئے ایسے تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے پتہ نہیں کیا چیز روکتی ہے؟ جس میں اس کی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔اسلام میں کسی کے گھر بلا اجازت نگاہ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ اس سلسلہ میں مذکورہ حدیث شریف میں بیان ہے ’’حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جس نے بلا اجازت ملنے سے پہلے پردہ اٹھا کر کسی کے گھر میں نظر ڈالی گویا کہ اس نے گھر کی چھپی ہوئی چیز دیکھ لی اور اس نے ایسا کام کیا جو اس کے لئے حلال نہیں تھا۔ پھر اگر اندر جھانکتے وقت کوئی اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا تو میں اس پر کچھ نہ کہتا ( یعنی بدلہ یا قصاص نہ دلاتا) اور اگر کوئی شخص کسی ایسے دروازے کے سامنے سے گزرا جس پر پردہ نہیں تھا اور وہ بند بھی نہیں تھا پھر اس کی گھر والوں پر نظر پڑ گئی تو اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں بلکہ گھر والوں کی غلطی ہے‘‘۔ (جامع تر مذی، جلد دوم، حدیث نمبر ۶۱۸.)

عورت کے پر دہ کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے لئے عبادت بھی پردہ کے بغیر اور بے پردہ جگہ پر کرنا منع فرمایا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ “رسول اللہؐ نے فرمایا کہ عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘ ہسنن ابو داؤد، جلد اول، حدیث نمبر ۵۶۷) یعنی عورت جس قدر بھی پردہ کرے گی اسی قدر بہتر ہے. صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی ہوئی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جیسے کسی بھی مرد کا کسی خاتون پر نظر ڈالنا درست نہیں اور پہلی نظر کی معافی کے بعد دوسری نگاہ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔ ایسے ہی خواتین کو بھی حکم ہے کہ وہ مردوں پر نظر نہ ڈالیں، اس حوالہ سے حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے پاس تھی اور آپؐ کے پاس حضرت میمونہؓ بھی تھیں۔ سامنے سے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (جو نابینا تھے) تشریف لائے اور یہ واقعہ پردہ کا حکم دیئے جانے سے بعد کا ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: کہ ان سے تم دونوں پردہ کرو۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہؐ! کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟حضور اکرمؐ نے فرمایا: کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو انہیں نہیں دیکھتی ہو‘‘. (سنن ابو داؤد، جلد سوم، حدیث نمبر ۷۲۰۔) تو اس حدیث سے ثابت ہے کہ خواتین کو بھی مردوں سے پردہ کرنا چاہئے اور نگاہ نہیں ڈالنی چاہیے۔ چاہے وہ مرد بصارت سے محروم ہی کیوں نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

نفسا نفسی کے اس دور میں جبکہ لوگوں کی آنکھوں میں حیا نہیں رہی۔ ہر طرف آوارگی اور بیہودگی کا دور دورہ ہے۔ ٹی وی، کیبل اور انٹرنیت وغیرہ پر غیر مذاہب یہود و نصاریٰ کی ثقافت نے ملت اسلامیہ پر عارضی طور پر غلبہ پا لیا ہے۔ہم میں سے ہر شخص کا فرض منصبی ہے کہ جس کی نگاہوں میں شرم و حیا اور عصمت کی کوئی قدر و منزلت ہے کہ وہ اپنی جوان بہو، بیٹیوں کو بے مقصد، بے پردہ باہر نکلنے سے روکیں اور وہ نامحرموں کے سامنے بے تکلفی سے آنے سے اجتناب کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply