پانی (7) ۔ پانی کی تجارت/وہاراامباکر

اگر نوبت فاقہ زدگی کی آ جائے تو دنیا کے ماہر ترین سفارت کار بھی پانی پر جنگ کو نہیں روک سکتے۔ بڑی اور بڑھتی آبادی والے جانی دشمن ممالک کا گھٹتے پانی کے باوجود ایک دوسرے کے ہمسائے میں امن سے رہنا کیسے ممکن ہے؟ دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان ایک کروڑ لوگ آباد ہیں جبکہ دستیاب پانی سے جو خوراک اگائی جا سکتی ہے، وہ یہاں کی ضرورت کا پانچواں حصہ ہے۔
پانی کا سب سے بڑا استعمال شہروں میں نہیں بلکہ کھیتوں میں ہے۔ دریا، جھیل اور زیرِزمین پانی کا ستر فیصد زراعت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ زرعی مصنوعات کا انحصار پانی پر ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی زرعی منصوعات میں embedded ہے یعنی کہ کا “حصہ” ہے۔ تو جب زرعی اجناس یا جانوروں کی برآمد یا درآمد ہو رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کی برآمد یا درآمد ہو رہی ہے۔
پانی کی یہ ورچوئل تجارت پانی کے قدیم مسئلے کا عالمی حل ہے۔ دنیا میں کئی جگہوں پر پانی کی فراوانی ہے جبکہ کئی جگہوں پر قلت۔ خوراک کی تجارت پانی کی تجارت کا سب سے ایفیشنٹ طریقہ ہے۔ سعودی عرب کی جھلسا دینے والی خشک گرمی میں مالٹا اگانے کے بجائے اسی کو فلوریڈا میں اگایا جا سکتا ہے۔ مصر میں گندم کا آنے والا ایک بحری جہاز دریائے نیل پر بوجھ کم کر دیتا ہے۔ جب میکسیکو امریکہ سے مکئی، گندم اور جوار خریدتا ہے تو یہ سالانہ سات ارب کیوبک میٹر کے ورچوئل پانی کی خرید ہے۔ نہ صرف یہ میکسیکو کی حالیہ دہائیوں کی خشک سالی کا حل ہے بلکہ اگر میکسیکو اس کو خود اگاتا تو اسے سولہ ارب کیوبک میٹر پانی کی ضرورت پڑتی۔ تجارت کا صرف یہ ایک تعلق جتنا پانی “بچا” رہا ہے، وہ اتنا ہے کہ پورے برطانیہ میں یہ پانی کھڑا کیا جائے تو ڈیڑھ انچ کی تہہ بنے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی کی یہ تجارت سیاسی لیڈروں کی گفتگو میں نہیں آتی۔ شمالی امریکہ پانی کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یورپ کے زیادہ تر ممالک، مشرقِ وسطیِ، شمالی افریقہ، جاپان اور میکسیکو پانی درآمد کرتے ہیں۔
یہ ناقابلِ یقین لگے لیکن انسانی کھپت کا چالیس فیصد پانی عالمی تجارت کے بہاوٗ میں زرعی اجناس اور صنعتی مصنوعات کے ساتھ اس طریقے سے حرکت کرتا ہے۔ اور اس تجارتی بہاوٗ کے بغیر دنیا بہت مختلف لگتی۔ خشک علاقوں میں اتنی آبادی نہ ہو سکتی۔ اور وافر پانی والی زرخیز زمین کو استعمال نہ کیا جاتا۔
گلوبلائزیشن اور عالمی تجارت پانی کی انمول دولت کا دنیا میں تقسیم ہونے کا طریقہ ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply