فرقت ۔۔ مختار پارس

مردان ِ خدا نہ بد گمان ہوتے ہیں اور نہ ہونے دیتے ہیں ۔ کوئے محبت میں کوئی بھٹک بھی رہا ہو تو اسے بھٹکا ہوا نہیں کہتے۔ دل میں داخل ہونے والی باتوں کو ہم گمان کہتے ہیں اور دل سے دور لے جانے والوں کو امتحان ۔ پانی نے آبشاروں سے نکل کر سمندروں کی طرف جانا ہے، اسے کون روک سکتا ہے۔ دریا سمندر کے کنارے پہنچ کر بدگمانی میں لوٹ نہیں سکتے۔ سمندر دھارے میں شامل ہونے والے آب رواں کو انکار نہیں کر سکتے۔ راستے تاریک ہوں تو بدگمانیاں جنم لے سکتی ہیں مگر اس سے منزل کو کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ خوشبو کا جھونکا ہو یا زرد پتوں کا گرتا ہوا جھرمٹ، وہ اسوقت تک دلنشیں ہے جب تک اس کے طالب کا گمان زندہ ہے۔

کبھی کوئی خواب رحمان کی طرف لے آتا ہے اور کبھی کسی کی یاد رحیم کے در تک پہنچا دیتی ہے۔ دستک دے کر ، دروازہ کھولنے والے سے ملاقات سے پہلے ، واپس بھاگنے والے ، یا طاقت دیدار نہیں رکھتے ، یا ان میں سماعت کا سلیقہ نہیں ہوتا۔ مرشد نے مرید کی طرف دیکھا تو اس کی اپنی دنیا بکھر گئی ۔ اس سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا مانگے اور کس کےلئے مانگے۔ مستعار جگہوں میں مردے اتارنے والے ، فلک بوس میناروں کی تعمیر کی خواہش میں خدا ڈھونڈنے والے، ایک فقیر کے سامنے کہاں ٹھہر سکتے ہیں ۔ خدا نہ مرقد میں ہے اور نہ گنبد کی گونج میں؛ وہ تو دھوپ میں رکھی چٹائی پر خشک ہونے کے انتظار میں پڑی کھجوروں میں ہے؛ وہ تو سر شام ڈھلتی دھوپ کو نم آنکھوں سے مسلسل دیکھنے والے کی دھڑکن میں ہے؛ وہ تو جان چھڑا کر جانے والے کے پیچھے پیچھے چپکے چپکے آنے والے قدموں میں ہے۔ وہ تو انتظار سخن میں ہے، وہ تو ابتدائے کلام میں ہے، وہ تو سلسلہ پیام میں ہے ۔

باہر سبھی کسی نہ کسی کو ڈھونڈتے ہیں ۔ دروں خانہ صرف انتظار رہتا ہے۔ کوئی پہنچ جائے تو چراغ جل اٹھتے ہیں اور کوئی نہ پہنچ سکے تو کڑکڑاتے سوکھے پتے گلیوں میں سر راہ ادھر سے ادھر اڑتے رہتے ہیں ۔انسان اپنی ذات کے گریبان کو چیر کر دیکھے تو اسے نظر آئے کہ مسافر میں اور منزل میں فرق صرف زاویوں کا ہے۔ حسن سے بدگماں ہونے والوں کو بدصورتیاں بھی پناہ نہیں دیتیں ۔ جلد کے اندر کی بدگمانیاں جسم سے باہر کو ویران کر سکتی ہیں ۔ ایک جھلک بھی اگر یاد میں محفوظ ہو جائے تو عذاب بن جاتی ہے۔ بالکل ایسے جیسے روشنی پانی میں اترتی ہے تو ڈگمگا جاتی ہے۔ پانی بھی ایک روشنی ہے۔ ایک روشنی دوسری روشنی میں اترنے کو تو اتر سکتی ہے مگر نور نور ہی رہتا ہے اور جھلمل صرف اپنی چمک کے ساتھ ہمیشہ کے ساتھ الگ ہی دکھائی دے گی۔ پانی جب نئے پانیوں میں اترتا ہے تو تادیر اپنے رنگ کو ساتھ لے کر بہتا ہے۔ مگر جب سورج ڈوبنے لگتا ہے تو سارے پانی ساری بدگمانیاں چھوڑ کر ایک رنگ کے ہو جاتے ہیں ۔ اداس ساحلوں پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے والے پہلے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر لہریں بن کر پانیوں سے لپٹ جاتے ہیں ۔

آنکھ جھپکنے پر آنسو گرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جہاں نہ کہیں کوئی ابر تھا اور نہ کوئی باراں، نہ کوئی آتش تھی اور نہ کہیں کوئی دھواں؛ وہاں بھی جل تھل صدیوں سے موجود تھی۔ ایک نفس کی خواہش نے کبھی چکاچوند کیا تو کبھی برباد؛ اپنے سے اچھے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے سے نہ کتراتے تو آج یوں نظریں چرا کر نہ بھاگنا پڑتا۔ ہر روپ میں انسان نے دوسرے انسانوں کو خود سے الگ سمجھا؛ مگر وہ اچھے برے، بہتر احقر، نوری ناری ، سارے ہمیشہ ایک ہی تھے۔ جب تک وہ اس بات کو تسلیم نہیں کر لیتے، وہ ایکدوسرے کو دیکھ کر بھی ایک دوسرے کو ڈھونڈتے رہیں گے ۔ جب تک وہ ایک دوسرے کو نہیں ڈھونڈ سکتے، وہ رحمان کیسے ڈھونڈ سکیں گے ۔

شکوہ کسی طور کسی سے جائز نہیں ۔ چراغ سے شکوہ کرو گے تو وہ روشنی دینا بند نہیں کرے گا۔ پانی سے شکوہ کرو گے تو پھر بھی ہر صورت تمہاری پیاس ضرور بجھائے گا۔ اندھیروں سے شکوہ کسی ظلمت کے خاتمے کا باعث نہیں بن سکتا۔ طوفانوں سے شکوہ تباہی کے پیمان اور پیمانے بدل ڈالنے پر قادر نہیں ۔ خدا سے شکوہ کرو گے تو وہ کونسا تمہاری بات میں سے تمہارا مطلب نکال کر اپنی ھدایت میں ترمیم کر ڈالے گا۔ انسان کا انسان سے شکوہ اور رنج ، حسد اور نفرت ، گماں کی پیٹھ پر سوار ہو کر کہاں تک سفر کر سکتا ہے ۔ جہاں سے فرار کی تمنا ہے، ہمیں وہیں پر واپس آنا ہے ۔ جس خواب نے پہلے تمہیں یہاں پر بھیجا تھا، اسی خواہش کا عمامہ پہنے تم پھر واپس آو گے۔ یہ یقین اس بنیاد پر ہے کہ بندے کو کسی سے کچھ نہیں لینا۔ انسان بد نیت ہو تو بدحال سے برا اور بدگماں ہو تو بدکار سے بھی بریدہ؛ براجمان کو برانگیختہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ فلک بوس زمیں بوس بھی ہو سکتے ہیں ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ تم ، تم ہی رہو اور میں بھی میں بن کر جیے جاوں ۔ اور جب تم مر نہ سکو اور میں مزید جی نہ سکوں تو تم میں ہو جاو اور میں تم بن جاوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موت سے مزاحمت نا ممکن ہے اور مفروضوں سے مفاہمت کا کوئی فائدہ نہیں ۔ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا مگر حق تک پہنچے کون؟ کہیں صورت دیدار نہیں اور کہیں فصیل جاں راستہ روک لیتی ہے۔ یہ بدگمانی نہیں، سچ ہے کہ نظر کا دھوکا پکی زمین پر بھی پائے استقامت نہیں رکھنے دیتا۔ جسم کے اندر کی جبلتیں بصارتوں پر ، آنکھ کے اندر موجود پرتو پر ، پردے ڈال دیتی ہیں ۔تسخیر عالم کا سوچنے والے کو فقط بیماری اور موت کا ڈر امتحان میں ڈال دیتا ہے؛ بھوک اور روزی کا خوف علم و فضل کے تکیوں پر براجمان بوسہ گیروں کی نیندیں اڑا لے جاتا ہے۔ امتحانوں سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ سب سے سخت امتحان یہ ہے کہ بندہ پہچان کھو بیٹھے ۔صرف ایک چیز ہے جو آزمائش سے نکال سکتی ہے اور وہ ہے ادراک شکستگی اور امکان درستگی؛ بدگمانی کے بھنور کو طواف محبت میں بدلا جا سکتا ہے۔ اگر تم تسلیم کر لو کہ تقصیر میں تفسیر ہے تو کوئی تمہیں یوں اٹھا لے گا جیسے ماں اپنے بچوں کو گود میں رکھ لیتی ہے۔ ماں کی مسکراہٹ کو جیتنا بالکل بھی مشکل نہیں۔ زحمت اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی ماں جیسے سے بدگماں ہو جاتا ہے۔ اس انتشار کا واحد علاج استغفار ہے

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply