• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • کیا شاعری کو’’ منزل من اللہ ‘‘مان لیا جائے ؟ یا یہ توقیفی نصاب ہے یا فنی ورزش کا نتیجہ ؟۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کیا شاعری کو’’ منزل من اللہ ‘‘مان لیا جائے ؟ یا یہ توقیفی نصاب ہے یا فنی ورزش کا نتیجہ ؟۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جواب/آنـنـد: ’منزل مِن اللہ‘ ، ’توقیفی نصاب ‘ اور ’فنی ورزش‘ ان تین کلیدی اصطلاحات کے معانی سمجھنے کی کوشش کرنا میر ا فرض ہے۔(۱) منزل مِن اللہ تو شاعر کے الفاظ میں (شایدآتش)ؔ ؎ ہماری منزل اوّل جو تھی سو تھی، بتائیں کیا : مگر اب منزل مِن اللہ تک پہنچنے کو ترستے ہیں۔۔ان معانی میں اگر نہ بھی لیا جائے تو ‘‘شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کے مطالب میں ڈھال لیں۔پہلے میری یہ نظم دیکھ لیں، جو جزوی طور پر اس موضوع کے استفہامیہ کا جواب ہے۔اس کے بعد میرا باقی ماندہ جواب پڑھیں۔

بو علی اندر غبارِ ناقہ گُم
میں اگر شاعر تھا، مولا، تو مری عہدہ برائی کیا تھی آخر؟
شاعری میں متکفل تھا، تو یہ کیسی نا مناسب احتمالی؟
کیا کروں میں؟
بند کر دوں اپنا بابِ لفظ و معنی؟
اور کہف کے غار میں جھانکوں ، جہاں بیٹھے ہوئے
اصحاب معبود ِ حقیقی کی عبادت میں مگن ہیں
اور سگ ِ تازی سا چوکیدار، ان کے پاس بیٹھوں
وحدت و توحید کا پیغام سُن کرورد کی صورت اسے دہراتا جاؤں؟
پوچھتا ہوں
کیا مری مشق ِ سخن ، توحیدکی ازلی شناسا
قرض کے بھُگتان کی داعی نہیں ہے؟
میں تو راس المال سارا پیشگی ہی دے چُکا ہوں
قرض کی واپس ادائی میں
مرے الفاظ کا سارا ذخیرہ لُٹ چکا ہے
شعر کو حرف و ندا میں ڈھالنا
تسبیح و تہلیل و عبادت سے کہاں کمتر ہے مولا؟
’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘۔۔۔۔کس نے کہا تھا؟
میں تو اتنا جانتا ہوں
میری تمجید و پرستش لفظ کی قرآت میں ڈھلتی ہے
تو پھر تخلیق کا واضح عمل تسبیح یا مالا کے دانوںکی طرح ہے

پھر خیال آتاہے شاید میں غلط آموز ہوں
جو شعر گوئی کوعبادت جان کر اِترا رہا ہوں
’’بو علی‘‘ ہوں، جو ’’غبار ِ ناقہ‘‘ میں گُم ہو گیا ہے!

٭بو علی اندر غبار ِ ناقہ گم : دست ِ رومی پردہ ٔ محمل گرفت۔
مجھے یہ اختیار نہیں ہے کہ میں نفی یا اثبات میں اس سوال کا جواب دوں۔ بہر حال اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ سچی شاعری میں ’وحی‘ کا، ’فال‘ کا، epiphany کا، ’آکاش بانی‘ کاکچھ عنصر ضرور ہوتا ہے۔ یہ پیش آگاہ بھی ہو سکتی ہے، پیش بین بھی ہو سکتی ہے، نہفتہ دان ہونے کی منزل تک پہنچنے میں اس بسا اوقات کامیابی نصیب ہوتی ہے، لیکن ہر بار نہیں۔ اس لیے کہ یہ بہم گفتگو کی زبان نہیں ہے، اور دنیاوی کام کاج کی parlance بھی نہیں ہے۔ جوف و جوع کی اس گہرائی سے اٹھتی ہے جس تک اپنے بیدار لمحوں میں ہماری رسائی نہیں ہو سکتی

(۲) دوسرا سوال اسی پر انحصار رکھتا ہے، کہ اگر ہم اسے منزل مِن اللہ تسلیم کر لیں تو ۔۔۔؟ جی نہیں، اگر ہم اسے مد نمبر ایک کے خانے میں ڈال دیتے ہیں، (جزوی طور پر ہی سہی) تو ۔۔ ؟

Advertisements
julia rana solicitors

توقیفی نصاب (توقیفی ؟یہ اصطلاح شرحی بھی ہے اور عمومی بھی ہے۔ شرحی اصطلاح کے طورپرا س کا مطلب ہم سب ’اللہ میاں کی ٹھہرائی ہوئی ‘ بات، رسم ، قول ،اصول،ضابطہ وغیرہ ہے۔ عمومی سطح پر توقیفی کا مطلب وقت ؍ اوقات سے متعلق ہے۔)۔۔۔ جی نہیں، میں اس قول پر یقین نہیں رکھتا، کہ اللہ میاں کی ٹھہرائی ہوئی بات تو گیتا، تورائت، انجیل ۔۔اور پھر حرف ِ آخر کے طور پر قرآن ہے۔ شاعری تو pedestrian levelکا قول ہے۔ عمومی سطح پر جو مطلب اخذ کیا جاتا ہے، اس پیمانے سے بھی یہ ماپی نہیں جا سکتی۔ البتہ یہاں تک قول و قیاس دونوں کی سطح پر میں تسلیم کرتا ہوں ، جیسے کہ ملٹنؔ نے انسان کے بارے میں کہا ہے، part angelic, part animal وہی قول شاعری پر بھی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔۔۔فنی ورزش؟ ما شا اللہ! کیا ترکیب ہے! تُک بندی کے ذیل میں آتی ہے، لیکن اب کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں، غزل کی ولایت میں ’کہنہ مشق‘ وغیرہ الفاظ زباں زد عام ہیں۔ مشق اور ورزش ایک ہی معانی میں استعمال کیے جاتے ہیں ، ایک شاعر کی ذہنی کسرت ہے، دوسری اکھاڑے کے پہلوان کی جسمانی ورزش ہے۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply