ہجوم۔۔سیّد محسن علی

معاشی اور سماجی بوجھ کاوزن اپنے کاندھوں پر اٹھائے مفلوک الحال لوگوں کا ایک ہجوم شہر سے گزر رہا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر کھلے گٹروں کے بہتے گندے پانی سے وہ بچتے اور ان معصوم بچوں کو یاد کرکے رنجیدہ ہوتے جو اِن کُھلے گٹروں میں گِر کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہ اپنے سروں کو جھکائے چلے جارہے تھے۔ اچانک ان کے سامنے سے  شہر کے منسٹر اور ناظم کی گاڑیاں گزریں وہ تکبر سے اس ہجوم کو تَک رہے تھے جو اِن کے وی آئی پی پروٹوکول سے مرعوب ہوکر ان کے احترام میں چند لمحے رک گیا تھا۔ آگے راستے میں آنے والے تھانے سے انہیں کسی عورت کے چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں، ہجوم نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے اور رفتا ر تیز کردی۔

وہ شہر کے مضافات سے گزرے جہاں ایک وڈیرہ اپنے کمداروں کے ہمراہ کسی غریب کو بُری طرح تشدد کا نشانہ بنارہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ بندہ مرجائے ،لوگوں نے فیصلہ کیا کہ دور کھڑے قانون کے رکھوالوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی جائے۔ لیکن وہ جب وردی والوں کے نزدیک پہنچے تو دیکھا وہ خود چند مسکین صورت شریف لوگوں کوز دوکوب کرکے کسی تفتیش میں مصروف ہیں، تو ہجوم نے خودگھبرا کر اپنا راستہ بدل لیا۔ اب وہ شہر کے ایک پوش ایریا میں تھے جہاں اِن کے سامنے ایک ر ئیس زادہ کسی معصوم صورت نوجوان لڑکی کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ایک بنگلے میں لے جارہا تھا۔ چند لمحوں کے لیے ہجوم کی غیرت کو جوش بھی آیا، لیکن ر ئیس زادے کے کتوں اور گارڈز کے ڈر سے وہ فوراً اس علاقے سے نکل گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب وہ شہر کے بازار میں تھے جہاں ہر طرف ملاوٹ شدہ دو نمبر مال منہ مانگے داموں فروخت ہورہا تھا، ہجوم نے افسردہ نگاہوں سے اس چور بازاری کو دیکھا۔ بازار میں ایک جگہ دو نو عمر لڑکے پستول دکھا کر دو خواتین کو لوٹ رہے تھے ،ہجوم خوف کے مارے انہیں نظر انداز کرکے گزر گیا۔ آگے انہیں دو بوڑھے والدین دکھائی دیے جو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر مدتوں سے انصاف کے منتظر تھے ،ہجوم نے گزرتے ہوئے انہیں بھی ملال زدہ نظروں سے دیکھا۔ جب وہ شہر کے وسط میں پہنچے تو دیکھا چند لوگ کسی نہتے کو توہین مذہب کے الزام میں بری طرح مار رہے ہیں اب ہجوم کے صبر کا پیمانہ یکدم لبریز ہوگیا۔ پورا ہجوم غضبناک ہوکر ان لوگوں میں شامل ہوکر اس پر پل پڑااور اسے مارنے کے بعد اپنے مذہب کی سربلندی کے نعرے لگانے لگااور اس مقام سے کچھ دور کھڑے وہی منسٹر اور قانون کے رکھوالے خوفز دہ نگاہوں سے اس مشتعل ہجوم کو تَک رہے تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply