میری خیر اے۔۔محمد وقاص رشید

ڈپلومہ کالج سے فارغ ہو کر نوکری کی تلاش تھی ۔گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر میں گھر میں بیٹھا جاگتی آنکھوں سے مستقبل کے خواب دیکھ رہا تھا کہ۔ ۔
ستّو لے لو ستّو۔۔۔ ستّو لے لو ستو
یہ آواز میرے کانوں میں پڑی تو تصور میں گڑ کا شربت گھول گئی۔ میں ستو خریدنے ریلوے کوارٹر جسے میں صرف عرفیت کی وجہ سے کوارٹر لکھ رہا ہوں وگرنہ وہی تو ایک گھر تھا وہی تو ایک منزل تھی فقط وہی ایک سکونت کہ جس کے بعد زندگی اسی طرح سفر میں ہے جس طرح ستو بیچنے والا وہ بوڑھا تھا۔میں جب لکڑی کے اس یادگار دروازے کو کھول کر باہر نکلا تو منحنی سی جسامت کا کمزور بوڑھا ہماری ہی گلی   سے گزر رہا تھا۔ مگر وہ اتنا سست گام تھا کہ زندگی زمین بن کر اسکے پیروں کے نیچے سے گزر چکی تھی۔جھکی ہوئی کمر پر اس نے ستو کی آدھی بوری نہیں بے بسی کا  پورا بوجھ اٹھا رکھا تھا ،یوں جیسے باپ جھک کر بیٹے کو اٹھاتا اور جھولاتا ہے۔تو اور کیا بڑھاپے میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مشقت کرنے والوں کی کمریں یا تو اولاد سے محرومی کا بار اٹھاتی ہیں یا پھر بیٹوں کو جھولا اتنی زور کا آ جاتا ہے کہ وہ مڑ کر واپس ہی نہیں آتا اولاد مڑ کر دیکھتی ہی نہیں کہ جوانی میں اسے اٹھانے  والا اب بڑھاپے میں زندگی کا وزن ستو کی بوری میں ڈال کر کمر پر لادے ہوئے ہے۔

میں نے آگے بڑھ کر زندگی کی قیمت پوچھی تو اس نے ستو کے دام بتائے اور جب میں نے اسے آدھا کلو تولنے کے لیے کہا تو بوڑھے نے تکڑی میں آدھا کلو کا باٹ ایک طرف رکھا اور دوسرے میں ستو ڈالنے لگا۔ بوڑھے کے ہاتھ اتنے کانپ رہے تھے کہ ستو نیچے گر رہا تھا کچھ بوری سے نکالتے ہوئے کچھ تکڑی میں ڈالتے ہوئے ۔اسکے ہاتھوں کی یہ لرزاہٹ روح کے ریکٹر اسکیل پر شدید قسم کا زلزلہ بن گئی تو اسے میں نے بتایا کہ بابا جی “ستو تھلے ڈھیندے پئے جے”,(ستو نیچےگر رہا  ہے )۔بوڑھے نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہا “پتر تیرا وزن پورا ہوسی میرے ہین جہیڑے ڈھیندے پئے ان “( تمہارا وزن پورا کروں گا یہ میرے ہیں جو گر رہے ہیں”۔۔ اُف ، وہ اطمینان اور وہ مسکان۔۔۔۔بوڑھے نے تو زندہ درگور کر دیا ۔ایک تو غریب لوگ بھی ناں بس۔۔ بے بسی کی انتہا پر ایک قناعت سے پُر مسکراہٹ کے ساتھ بختوں کے لکھے کا بھرم رکھ لیتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بوڑھے کے آدھا کلو ستو گرتے اور آدھا کلو تلتے میں نے بوڑھے کے ہاتھ سے تولن لے کر ستو تول دیے ۔بوڑھے نے ستو مجھے دیے ،پیسے لیے اور ایک بار پھر چلچلاتی دھوپ میں آگے کو بڑھ گیا۔میں گھر آیا ستو رکھے اور اپنی نمناک آنکھوں کو والدہ کی طرف کیے بغیر کہا ابھی آیا۔۔۔اور بوڑھے کے پاس جا کر بوری اٹھا لی ،حیرت سے اس نے میری طرف دیکھا اور استفساریہ انداز میں سر کو جنبش دی تو میں نے اس سے کہا دو چار گلیاں آپ کے ساتھ ستو تول دیتا ہوں تا کہ آپ کا نقصان نہ ہو۔کہنے لگا نہیں نہیں اتنی گرمی میں خراب نہ ہو ،میری خیر ہے۔ “میری خیر ہے ” بابے کے تین لفظ دنیا کے تمام موٹیویشنل سپیکرز کی چکنی چپڑی باتوں کو مات دے چکے تھے۔

ستو کی بوری کو میں نے کمر پر اٹھایا اور بوڑھے کے ساتھ چلنے لگا، اچانک چلچلاتی دھوپ جیسے محبت کی ٹھنڈی چھاؤں بن گئی۔۔ماتھے سے گرتا پسینہ جیسے ابر بہاراں کی پھوار سی بنتا محسوس ہونے لگا ۔
لوگ مجھے یوں دیکھ رہے تھے جیسے میں مریخ سے آیا ہوں جیسے میں ایلین ہوں۔۔ کوئی ابنارمل آدمی ۔۔۔
میرا دل کیا کہ میں انہیں چیخ چیخ کر بتاؤں کہ بابا میں آدم ہوں اور جنت سے آیا ہوں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بوڑھے کی آواز پہلے سے بلند ہو گئی۔ گاہک گھر سے نکلتا تو بوڑھا ستو کا مالک ہونے کے باوجود بڑی لجاجت سے کہتا باؤ جی کلو تول دیو ،باؤ جی ادھاکلو تول دیو ۔اور پھر بڑا خوش ہو کر مجھے کہتا کہ اب میں واپس چلا جاؤں بہت گرمی ہے اور اس سے اور ستو لے جاؤں اور برف اور گڑ میں ڈال کر پیئوں۔ پر بوڑھے کو کیا پتا تھا کہ گھر میں بیٹھ کر کڑھنے یا لفاظی کرنے سے آگے بڑھ کر کچھ کر گزرنے کی دھن بوڑھے کے ستو سے زیادہ فرحت بخش تھی ۔کچھ دیر میں بوڑھے کے ستو بک گئے اور آخری گاہک نے بچے ہوئے ڈیڑھ کلو لیے تو بوڑھے نے جونہی مجھے کہا کہ ادھے پیسے لے لئو باؤ جی مینوں ادھے وی بتھیرے ہین ” (آدھے پیسے تم رکھ لو مجھے باقی ماندہ آدھے بھی کافی ہیں)۔ مجھے اب تو بوڑھے نے گویا بے مائیگی کے سمندر میں  دھکا ہی دے دیا۔۔میں نے اسے انکار کیا تکڑی لپیٹی بوری میں رکھی اسے خدا حافظ کہا ۔۔اسی خدا کے حافظ جسے مڑ تے ہوئے میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں کہا اے بے نیاز بادشاہ! اپنی رعایا میں ایسوں کی طرف نگاہِ کرم کر دے جو یاسیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں تیری امیدوں کے چراغ بجھنے نہیں دیتے۔۔۔بے بسی و لاچارگی کے شر کی دیوی کے کان میں ہلکی سر گوشی کر کے اسکی ہیبت و حشمت کو نظامِ زمانہ میں غرق کر دیتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ “میری خیر ہے “۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply