کچھ دن پہلے میری ایک امریکی دوست کی طرف سے ایک میسج موصول ہوا۔ جس میں اس نے اطلاع دی کہ وہ جلد ہی ٹرانس جینڈر آپریشن کروانے والی ہے۔ اس سے مزید کچھ عرصہ پہلے ایک اور دوست کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کو ٹرانس جینڈر ہوئے پورا ایک سال ہو گیا ہے۔ سن کرایک لمحے کے لیے تو یقین ہی نہیں آیا،اور جب یقین آیا تو دکھ کی انتہا نہ تھی۔ اس بات کا افسوس نہیں تھا کہ میری دوستیں اپنے ساتھ کیا کر رہی ہیں۔ غم تو دوستوں کے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کے پس منظر پہ ہے۔ جو دن رات ہماری کھلی آنکھوں کے سامنے کسی رقاصہ کی طرح ناچتے رہتے ہیں مگر ہم ان کو دیکھنا نہیں چاہتے۔
ٹرانس جینڈر کیا ہے؟ پاکستان میں عام فہم میں ان لوگوں کو “ہیجڑا” ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ میں ٹرانس جینڈر وہ مرد نہیں ہیں جو فقط میک اپ کر کے اپنے آپ کو عورت ظاہر کراتے ہیں۔ بلکہ یہ وہ مرد ہیں جو آپریشن کروا کر اپنی مرضی سے باقاعدہ عورت بنتے ہیں۔ کیونکہ ان مردوں کو لگتا ہے کہ ان کو مرد کی بجائے عورت پیدا ہونا چاہئے تھا۔ اور ایسی عورتیں بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ ان کو عورت کی بجائے مرد پیدا ہونا چاہئے تھا تو وہ بھی اپنے آپریشن کرا کے اپنے آپ کو مرد بناتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں حکومتی سطح پر بے شمار ہیجڑوں کا طبعی معائنہ کیا گیا۔ اس طبعی معائنہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موجود اسی فیصد سے زیادہ ہیجڑے مکمل مرد ہیں، اور جب ان سے پوچھا گیا کہ مرد ہونے کے باوجود عورت کا روپ اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے؟تو کم و بیش سب ہی نے کچھ ایسا جواب دیا کہ، “ہمیں لگتا ہے ہم کو مرد کی بجائے عورت پیدا ہونا چاہیے تھا۔”
امریکہ میں تقریبا ًدنیا کی ہر برائی ہی دو قدم آگے ہے۔ وہ لوگ جنھیں اپنے مرد اور عورت ہونے پر اعتراض ہوتا یا اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہوتے تو ایسے لوگ اپنی قدرتی پیدائش کی نفی کرتے ہوئے کئی آپریشن کراتے ہیں۔ اور لاکھوں پیسہ لگانے کے بعد مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ اور اس کے بعد بھی اپنے آپ سے اور زندگی سے مطمئن نہیں ہو پاتے۔ دو سال پہلے امریکی ٹی وی آرٹسٹ بروس جینر نے پینسٹھ سال کی عمر میں اپنا ٹرانس جینڈر آپریشن کروایا۔ چھ بچوں کا باپ ہونے کے باوجود اس نے ایک مرد سے اپنے آپ کو عورت بننے کو ترجیح دی۔ یہ ٹرانس جینڈر آپریشن امریکی تاریخ کا سب سے بڑا اور بہت کامیاب آپریشن تھا۔
اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے جو سوال عموما ًذہن میں آتا ہے وہ ہے “کیوں”؟ آخر ایک مرد عورت کیوں بننا چاہتا ہے؟ اور ایک عورت مرد کیوں بنتی ہے؟ امریکی ماہر نفسیات نے ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے میں برسوں صرف کیے۔ آخر میں جس نتیجے پر پہنچے وہ یہ تھے، “بچوں کو نظر انداز کرنا، مار پیٹ و ہراساں کرنا (ڈرانا دھمکانہ)۔” بظاہر دیکھنے میں یہ بات جتنی معمولی محسوس ہوتی ہے اس کا نتیجہ اتنا ہی خطرناک ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ فقط امریکہ کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا ہے۔
بچوں کے سامنے بڑوں کا آپس میں جھگڑنا، غلطی پر ان کو مارنا اور خوف دلانا ایک عام بات ہے۔ یہ رویہ بچوں کے اعصاب پر کس بری طرح اثر انداز ہوتا ہےاس کا اندازہ گھر کے بڑوں کو اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ اپنے مسئلوں میں الجھ کر بچوں کو اور ان کی باتوں کو نظر انداز کرنا، ان کو اہمیت نہ دینا، ان کے سوالوں کا جواب نہ دینا، غصے اور سخت لہجے سے ان کے دلوں میں رعب پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ درحقیقت یہ تمام رویے بچوں کو بڑوں ہی سے نہیں ان کو خود سے بھی متنفر کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں ان میں احساس کمتری اور عدم تحفظ کا احساس بھی بڑھتا رہتا ہے، اور صحیح وقت پر درست سمت کی نمائندگی نہ کرنے پر ان بچوں کی حالت اس مسافر کی سے ہو جاتی ہے جو اندھیرے میں منزل ڈھونڈنے نکلتا ہے اور پھر فقط بھٹکتا رہتا ہے۔
میری امریکی ایک دوست جو جلد ہی ٹرانس جینڈر آپریشن کروا کے عورت سے مرد میں تبدیل ہونے والی ہے شادی شدہ ہے اور ایک عدد بیٹی کی ماں بھی ہے۔ لیکن کیونکہ اس کو اب لگنے لگا ہے کہ وہ عورت سے زیادہ، ایک بہتر مرد بن سکتی ہے تو وہ بن رہی ہے۔ یہاں کے مکتبوں میں بچوں کو یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ یہ تمہارا حق ہے کہ تم مرد رہو، عورت رہو، گے اور لیسبین بنو یا ٹرانس جینڈر ہونا چاہو، کوئی تم کو روک نہیں سکتا۔ یہاں کا مذہبی طبقہ بھی اس کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کے باوجود اس برائی کو معاشرے میں پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
ہمارے غلط رویے ہماری آنے والی نسلوں کی ذہنی بیماری کی وجوھات ہیں۔ ایک مرد کو لگے کہ اس کو عورت ہونا چاہئے یا ایک عورت کو لگے کہ اس کو مرد ہونا چاہئے ایک انتہائی خطرناک نفسیاتی سوچ ہے۔ جو دن بہ دن پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ ان لوگوں کی اعصابی کمزوری اور اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ ہوتا ہے جو ٹرانس جینڈر لوگوں کو معاشرے میں جنم دیتا ہے۔ ایسے میں شدید ضرورت ہے کہ ان نفسیاتی مسئلوں کو سنجیدگی سے سمجھا جائے اور مکمل توجہ وعلاج پر توجہ دی جائے۔ شاید اب تک یہ خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر کے حوالے سے بڑے پیمانے پر طبعی سہولیات میسر نہیں۔ لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے نہیں۔ مسئلہ مشرق و مغرب کا نہیں ہے۔ مسئلہ رویوں کا ہے، سوچنے کی طرز کا ہے۔ مغرب کو برا کہنا، وہاں کی برائیوں پر بحثیں اور تقاریر کرنا ہمارا عام رویہ ہے۔ مگر ان ہی برائیوں اور غلطیوں کو شعور کی کسوٹی پر نہ پرکھنا، اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا ہمارا المیہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں