عظمتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ۔۔طوبیٰ حسن

نبیِّ کریمﷺ م کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم امتِ مسلمہ میں افضل اور برتر ہیں، اللہ پاک نے ان کو اپنے رسول ﷺ کی صحبت، نصرت اور اِعانت کے لئے منتخب فرمایا، ان نفوسِ قدسیہ کی فضیلت و مدح میں قرآنِ پاک میں جابجا آیاتِ مبارکہ وارد ہیں جن میں ان کے حسن ِعمل، حسن ِاخلاق اور حسن ِایمان کا تذکرہ ہے اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت اور انعاماتِ اُخروی کا مژدہ سنا دیا گیاہے۔ جن کے اوصافِ حمیدہ کی خود اللہ پاک نے تعریف فرمائی ان کی عظمت اور رفعت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟ ان پاک ہستیوں کے بارے میں قرآنِ پاک کی کچھ آیات درج ذیل ہيں:

یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔

اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں  ہیں ،وہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے۔

تمام صحابہ کرام سے محبت کرنااور اُن کاظاہری و باطنی طور پر عملاً احترام کرنا، صحابہ کےباہمی ظاہری اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا اور ہر قسم کی منفی رائے  دہی سے اجتناب کرنا، اور یہ عقیدہ رکھنا کہ تمام صحابہ مجتہد ہیں اور اللہ کے یہاں انتہائی معزز اوراجر و ثواب والے ہیں اور اُن کی سیرت و کردار کو زبانی و عملی طور پر اپنانا ’’ہر مسلمان پرفرض و واجب ہے‘‘۔

اللہ رب العزت نے  سورہ توبہ میں فرمایا؛
“اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔”

کیا یہ بشارت کسی ایک صحابی کے نام ہے؟ نہیں، یہ تو ان سب کے لئے ہے! سو ذرا سوچیں کہ جن سے اللہ نے راضی ہونے کا اعلان کردیا ان سے ہم عداوت رکھ کے یا انکی درجہ بندی کر کے کون سا نیک عمل کر رہے ہیں؟

نبی ﷺ نےاپنے کسی بھی صحابی کو گالی دینے، بُرا کہنے و سمجھنے سے سخت منع فرمایا ہے،اور یہ بھی فرمایا کہ کوئی بھی مسلمان اپنا سارا مال خرچ کرکے بھی میرے (رسول اکرمﷺکے) کسی بھی  صحابی کے رتبہ اور فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا، حدیث یہ ہے:
“میرے صحابہ کو گالی یا بُرا نہ کہنا، (جان لو کہ) تم میں سے کوئی بھی اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی (صدقہ و خیرات میں) خرچ کرلے تو وہ اُن (صحابہ) میں سے کسی بھی ایک کے مکمل یا آدھے مُد (آدھا کلو یا ایک پاؤاناج کےخرچ کرنے کی فضیلت و مقام) تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔”
-بخاری و مسلم

سب سے عظمت والے لوگ جن سے محبت اور دوستی رکھنا بھی واجب ہے اور ان کی دشمنی سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے وہ اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی صحبت کے لئے چُنا ہے، اور انہیں (لوگوں تک) دین منتقل کرنے اور قرآنِ مجید کی ذمہ داری نبھانے کی یہ توفیق عطا فرمائی، اور ان سے راضی ہوگیا اور ان کی تعریفیں کیں اور پاکیزگی بیان کی۔

اللہ تعالی نے فرمایا:
“محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ  کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں۔”

ایک اور جگہ فرمایا؛
“یقیناً اللہ تعالیٰ  مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔”

میں اور آپ صحابہ کرام کے اعمال و افکار پہ تجزیہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ کہ جب نبی ﷺ نے خود فرمایا؛
“سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں۔”

اور بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ان کی فضیلت اس طرح بیان ہوئی ہے:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں گےاور پوچھیں گے: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی صحابی رسولﷺہے؟)وہ کہیں گے: جی، تو انہیں فتح نصیب ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں گےاور یہ پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکے کسی صحابی کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی تابعی ہے؟)وہ کہیں گے: جی، تو اُنہیں بھی فتح نصیب ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں گےاور پوچھیں گے: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکے صحابی کی صحبت پانے والے کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی تبع تابعی ہے؟)وہ کہیں گے: جی، تو ان کے ہاتھ پر بھی فتح ہوگی۔”
(یعنی جنگ میں صحاباء، تانعین و اتباعِ تابعین میں سے کسی کی بھی موجودگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کے نزول اور لوگوں کی فتح کا سبب ہوگا، اور تاریخ شاہد ہے ایسا ہی ہوا اسلام کے شروع کے تین سو سال کہ جوصحاباء، تابعین و اتباعِ تابعین کے زمانے تھے ان میں اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا)

امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛
“اور ہم اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں، اور ان میں سے کسی کی محبت میں بھی غلو نہیں کرتے، اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک سے براءت کرتے (اور نہ ہی کسی پر تبرّاء کرتے )ہیں، اور ہر اس شخص سے بغض رکھتے ہیں جو ان (صحابہ) سے بغض رکھتا ہےاور جوان کی برائی کرتا ہے۔اور ہم ہمیشہ اُن کا ذکرفقط اچھائی ، خیر و بھلائی ہی کے ساتھ کرتے ہیں، اُن (صحابہ )سے محبت کرنا دین، ایمان اور احسان ہے، اور ان سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے۔”

یہی مزاج آج کے اس پرفتن دور میں ہم سب کو اپنانے کی ضرورت۔
یاد رہے کہ صحابہ کی محبت دین، ایمان اور احسان کا مجموعہ ہے؛ کیونکہ اس میں اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کی تکمیل ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے اللہ کے دین کی مدد کی، اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم پر جہاد کیا اور جان، مال اور خون سب کچھ قربان کردیا۔

زمانہ گزرنے کے باوجود بھی امت ان سے بھرپور محبت کرتی ہے، ان کی سیرت کا مستقل اہتمام کرتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی اور جلال کی بہترین صورت، بلندی، شرف ، عالی شان مقام اور عمدہ نمونہ نکھر کر سامنے آسکے۔

سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ستارے آسمان کی امان ہیں، جب یہ جھڑجائیں گے، تو آسمان تباہ ہو جائے گا میں آپ کی امان ہوں، میرے جانے کے بعد آپ فتنوں سے دو چار ہو جائیں گے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں، یہ فوت ہو گئے، تو میری امت کو فتنے آن لیں گے”

اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک یہ بھی قول ہے:
“یقیناً اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمد ﷺ کا دل سب سے بہتر پایا، اسی لئے انہیں اپنے لئے چُن لیا، اور اپنا پیغام دے کر بھیجا، پھر محمد ﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو ان کے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہترین پایا اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزراء بنادیا، جو اس کے دین کی خاطر جہاد کرتے تھے۔”

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں؛
“یاد رکھیں کہ یہ گزرے ہوئے لوگ رسول اللہ صلی اللہ کے پیارے صحابہ ہیں، اللہ کی قسم وہ امت میں سب سے افضل تھے، ان کے دلوں میں نیکیوں کی سب سے زیادہ تڑپ تھی، وہ سب سے زیادہ گہرے علم والے اور کم تکلف کرنے والے تھے یہ وہ لوگ تھے جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کیاقامت کے لیے منتخب کر لیا تھا لہذا تم ان کے فضل و مقام کو پہچانو، ان کے آثار کی پیروی کرو ان کے اخلاق اور دین کو حتی الوسع مضبوطی سے تھام لو، بلاشبہ وہ سیدھی ہدایت پر قائم تھے.”
(تفسیر بغوی284/01)

تمام صحابہ کرام سے محبت کیوں نہ کی جائے جب اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سب سے راضی ۔۔
حضرت معصب بن عمیر کو لیں یا بلال حبشی کو کریم آقا علیہ صلاۃ و السلام کا ہر صحابی سچا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تعالیٰ ہمیں مقام صحابہ کو سمجھنے اور ان کے اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ہمیں اور آپ سب کو صحابہ سے محبت کرنے والا اور ان کے نقوش کی پیروی کرنے والا بنائے اور ان سب کے منہج و طریقہ پر چلنے والا بنائے، آمین یا رب العالمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply