سجدۂ شوق۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

لاڑکانہ سے سہیل چانڈیو نے ایک سوال ارسال کیا ہے۔ سوال کرنے والا سائل ہوتا ہے۔ آفرین ہے ٗایسے سائل پر جو مستقم اور مستقل مزاج ہو۔ سچ ہے ایسا سائل ہی اپنے مسئول سے داد پاتا ہے۔ درجنوں سے زائد مرتبہ اس نوجوان نے مجھے یاد دہانی کروائی کہ وہ اپنے سوال کے جواب کا منتظر ہے۔ انتظار نے اسے مایوس نہیں کیا۔ انتظا ر شاید ایک باطنی تطہیر کا عمل ہے۔

دمِ تحریر‘ اس نوجوان کے انتظار سے مجھے اپنی نوجوانی کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ واقعہ یوں ہے کہ ہم نوجوانی کے عالم میں دانشورانہ سیر سپاٹے کی لت کا شکار تھے، ایک دن حضرت واصف علی واصفؒ کے دَرِ دولت پہ حاضری ہوئی۔ یہ آپؒ کے ساتھ ملاقات کے ابھی ابتدائی ایام تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔آپؒ کے سامنے والی کرسی پر ایک مہمان جو اپنے گھنگھریالے بالوں میں چاندی لیے ہوئے تھےٗ تشریف فرما تھے۔ آدابِ محفل ابھی سیکھنے کے مراحل میں تھا۔ میں دفتر کے دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر اجازت لیے بغیر ہی دھڑام سے مہمان کے ساتھ والی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ آپؒ نے اپنی گفتگو روک دی، اور اُن صاحب کی طرف جنبشِ ابرو سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھاٗ انہیں جانتے ہو؟ میں نے بغور دیکھتے ہوئے کہا، جی! جانے پہچانے سے لگ رہے ہیں، چہرے مہرے سے پکے شاعر معلوم ہوتے ہیں۔ تعارف کرواتے ہوئے کہنے لگےٗ یہ ذوالفقار تابش ہیں۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہا، نوجوان! تم کچھ دیر باہر دھوپ کا لطف لوٗ ہم ذرا ایک بات کر لیں۔ چنانچہ مجھے کمرے سے باہر کھڑا کر دیا گیا۔ اب میں باہر کھڑا اندر ہی اندر تلملا رہا ہوں کہ مجھ ایسے’’دانشور ” کی بے عزتی کردی ۔ تقریباً آدھ گھنٹے تک میں گلشنِ راوی والے گھر میں گیٹ کے قریب کھڑا انتظار کرتا رہا۔ کبھی دل میں وسوسہ دَر آئے کہ کہیں مجھے کھڑا ہونے کا کہہ کر آپ ؒ بھول تو نہیں گئے، کبھی باغیانہ سوچ سَر اٹھائے کہ بس بہت ہو گیا، موٹر سائیکل سٹارٹ کرتا ہوں اور واپس چلا جاتا ہوں۔ اتنے میں آپؒ تا بش صاحب کو الوداع کہنے کیلئے باہر تشریف لائے، اور مجھے وہیں کھڑا دیکھ کر کہنے لگے، دیکھا! ہم نے تمہیں باہر انتظار کرنے کا کہا اور دو کام کرلیے ، ایک یہ کہ ہم نے اپنی بات مکمل کر لی اور دوسرا کام یہ ہوا کہ تمہارا ٹیسٹ بھی ہو گیا، اگر تم انتظار نہ کرتے اور چلے جاتے تو— بس چلے جاتے!!تابش صاحب کو رخصت کرنے کے بعد آپؒ مجھے اندرلے آئے اور باتوں باتوں میں میرے دل میں گذرنے والی کیفیات کو بیان کر دیا۔

نوجوان کا سوال ہے کہ حضرت واصف علی واصفؒ کی کتاب’’قطرہ قطرہ قلزم‘‘ کے مضمون’’فراق و وصال‘‘ میں آپؒ نے ایک جملہ قلم بند کیا ہے’’محبت کا سجدہ‘ انسان کو ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان جو پانچ وقت مساجد میں نماز پڑھتے ہیں‘ کیا وہ محبت کا سجدہ نہیں کرتے؟ یہ سوال انتہائی نازک بھی ہے اور اہم بھی۔ اس سوال میں طالب علم نے یہ مفروضہ قائم کر لیا ہے کہ محبت کا سجدہ کرنے والا گویا فرض نماز کے بار بار سجدے کرنے سے فارغ باشد ہو جاتا ہے۔ یہ سوال اِس مفروضے پر قائم ہے کہ طریقت گویا شریعت کا متبادل ہے، محبت گویا فرض عبادات سے سبکدوش کر دیتی ہے، سجدۂ شوق گویا عبادت کے سجدے کو کفایت کر جاتا ہے۔ سوال کی کونپل کو اِس کی جڑ سے پہچاننا چاہیے۔ بنیاد اگر درست ہوگئی تو فکر کی عمارت درست استوار ہوگی۔ ہمارے سوال کا ہیولہ ہی ہمارے فکر کی ہیئت بتاتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے بڑی وضاحت اور صراحت سے بیان کر دیا ہے کہ طریقت دراصل شریعت بالمحبت ہے۔ فرائضِ شریعت کو اگر محبت سے بجا لایا جائے تو یہی طریقت ہے۔ یاد رہے کہ احادیث مبارکہ میں تین درجے بیان کیے گئے ہیں— اسلام ، ایمان اور احسان۔ تصوف درجۂ احسان ہے۔ یوں سمجھ لیا جائے کہ تصوف گویا تیسری منزل ہے، اگر پہلی اور دوسری منزلیں تعمیر ہی نہ کی جائیں، تو تیسری منزل کی تعمیر؟ چہ معنی دارد؟ بنیاد کے بغیر عمارت کا تصور بے بنیاد ہے۔ یہ قطعی ناممکن ہے کہ اسلام اور ایمان کے درجات کی نفی کرنے کے بعد کوئی شخص مقامِ احسان پر متمکن ہو سکے۔ بابِ تصوف کے جدِّ امجد سیّدِ ہجویر حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب’’کشف المحجوب‘‘ میں فرماتے ہیں کہ مجھے حیرت ہے اُس شخص پر جو فرائض ترک کر دیتا ہے اور نوافل کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔

دراصل ہر فعل کا ایک محرک ہوتا ہے۔ اگر ہم محرک کی کنہ تک پہنچ جائیں تو اُس فعل کی ہیئت ِ اصلی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے اعمال و افعال کا محرک کوئی دیدہ و نادیدہ خوف ہوتا ہے یاپھر کسی مفاد ، مقام اور مرتبے کے حصول کا لالچ کار فرما ہوتا ہے۔ نفسیات کے عام کلیے کے مطابق ہمارے کسی فعل کا سبب خود کو کسی تکلیف سے دُور کرنا ہوتا ہے یا پھر کسی لذت سے ہمکنار ہونا مقصود ہوتا ہے۔ جو شخص دل کی دنیا پر یقین نہیں رکھتاٗ وہ زندگی کی کسی باطنی جہت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اُس کے نزدیک زندگی میں انسان کو حرکت میں لانے والے ماخذ صرف اور صرف اس کی جبلّی محرکات ہوتے ہے اور انسانی جبلت کے دو اہم پہلوٗ خوف اور لالچ ہیں۔ خوف کسی ممکنہ تکلیف کے پہنچے کا بھی ہو سکتا ہے اور لالچ میں تمام جلد یا بدیر حاصل ہونے والی لذات کا لالچ شامل ہیں— تسکینِ اَنا سے لے کر تسکینِ وجود تک سب لذّات ہیں۔ جو شخص اِنسانی اعمال کو اس کی بدنی جبلتوں کا نتیجہ جانتا ہے ‘ وہ کسی ماورائی عقیدے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اُس کی جولان گاہ صرف اور صرف مادّی کائنات ہے۔ وہ انسان کو مادّے کی ایک ترقی یافتہ قسم تصور کرتا ہے۔ اُس کی دانست میں اِنسان مادّے پر متصرف ہے اور اِنسان مادّے پر— گویا اِنسان مادّے کو اور مادّہ انسان کو بدل رہا ہے۔ سرتا سر مادّی شعور میں گھرا ہوا شخص جب کسی مذہب کو قبول کرتا ہے تو اِسے وہاں بھی مادّی محرکات ہی نظر آتے ہیں۔ وہ دینی شخصیات کو تاریخ کے جبر نتیجہ سمجھتا ہے۔ باطنی نظام سے ناآشنا ہونے کے سبب‘ وہ دین کو محض ایک نظامِ جزا و سزا کے طور دیکھتا ہے۔ وہ بالعموم عبادت کرتا ہے کسی جزا اور انعام کے لالچ میں ٗیا پھر کسی ممکنہ تعدیب و سزا کے خوف سے۔

اِس کائنات میں باطنی شعور رکھنے والے ایک اور جہان بھی دریافت کرتے ہیں، وہ اسے کبھی دل کہیں گے، کبھی سرّ، کبھی باطن اور کبھی خیال کے نام سے موسوم کریں گے۔ باطنی جہت سے تمسک رکھنے والا شخص دِل اور پھر رُموزِ دلبری سے آشنا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی میں ہمارے عمل کا اصل محرک قلب میں موجزن خیال ہونا چاہیے — اور خیال اپنی اصل میں محبوب کا خیال ہوتا ہے۔ وہ محبوب کے چہرے کو قبلہ تصور کرتا ہے،تمام مناسکِ عبودیت میں اُس کی نیت قربت ِ محبوب کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی ۔وہ محبوب کی ذات کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس کی زندگی کا محور محبوب کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ رکھنا ہے۔ وہ اوامر و نواہی پر اس لیے کاربند ہوتا ہے کہ اَومر پر چلنا محبوب کو پسند ہے ، اور نواہی میں جا پڑنا محبوب کی ذات پر گراں گزرتا ہے۔ صفات کی دنیا اُسے اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، کوئی خوف اور لالچ اس کے عمل کا تنہا محرک نہیں بن پاتا۔ جادۂ شوق اُس کی سواری ہوتی ہے— اور یہ خوب برق رفتاری سواری ہے۔ وہ شوق کا دِیا جلاتا ہے ، سوزِ دروں میں خود جلتا ہے اور اپنے ہم نَفَسوں کو مثل ِ پروانہ جلاتا ہے۔ اِس کا سجدہ‘ سجدۂ شوق ہے—شوق محبوب کا ہوتا ہے، اور محبوب ایک ہوتا ہے، واحد ہوتا ہے۔ اُس کی جبینِ شوق جب دَرِ محبوبؐ پر جھکتی ہے تو دَر دَر کے سجدوں سے نجات پا لیتی ہے۔

ظاہری اور اجتماعی رسوم ِ عبادات میں منافق ، مسلمان اور مومن تینوں بظاہر یکساں کھڑے نظر آتے ہیں۔ منافقین کے لیے اجتماعی عبادات میں جوش وخروش دکھانا شاید اِن کی مجبوری بھی ہے کہ دکھاوے کا موقع تنہائی میں میسر نہیں آ سکتا۔ صرف قلب میں موجزن خیال کی لہر ہے ٗ جس کی پاکیزگی ایک منافق ، مسلمان اور مومن میں تفریق کرتی ہے۔ منافق کا سجدہ ‘دکھاوے کا سجدہ ہے، مسلمان کا سجدہ‘ تسلیم کا سجدہ ہے، اور مومن کا سجدہ‘ سجدہ ٔشوق ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے کسی نے دریافت کیا کہ دین کی کتنی اقسام ہیں؟ آپؑ نے فرمایا ’’لوگوں کے دین کی تین قسمیں ہیں‘ خوف کا دین، لالچ کا دین اور محبت کا دین، اور دراصل یہ دین کی نہیں بلکہ لوگوں کی اقسام ہیں ۔ پہلی قسم کے لوگ اللہ کی عبادت اِس لیے کرتے ہیں کہ اُنہیں خوف ہے کہ وہ کہیں جہنم میں نہ ڈال دئیے جائیں۔دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں‘ جو جنّت کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ہیں، اور تیسری قسم کے لوگ وہ ٗجنہیں نہ تو جہنم کی آگ کا خوف ہے اور نہ جنّت ہی کا لالچ ہے بلکہ وہ اللہ کی عبادت اِس لیے کرتے ہیں کہ وہ واقعی عبادت کے لائق ہے۔ اُس شخص نے پوچھا کہ اِن تینوں میں سے بہتر کون ہے؟آپؑ نے فرمایا ’’سب سے بہتر وہ ہیں ٗجو محبت کے دین پر ہیںٗ کیونکہ وہ صاحبانِ معرفت ہیں ‘‘

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply