• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جن، بُھوت اور سایہ , ایک علاج یہ بھی ہے۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

جن، بُھوت اور سایہ , ایک علاج یہ بھی ہے۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

یہ چند سال قبل کا واقعہ ہے۔
میں دفتر سے واپسی پر رشید کی فروٹ شاپ پر رُکا ،جہاں رشید حسب ِمعمول چوکس کھڑا فروٹ فروخت کر رہا تھا۔ اکثر و بیشتر رشید سے فروٹ خریدنے کی وجہ سے ایک دوستی کا سا رشتہ قائم ہو گیا تھا۔ میں دوست ہونے کے ناطے فروٹ اسی سے خریدتا رہا اور وہ ہمیشہ آنکھ بچا کر شاپر میں دو تین گندے فروٹ ڈال کر “حق دوستی” خوب نبھاتا رہا۔

خواتین کی کوالٹی ایشورنس پالیسی کا تو سب کو بخوبی اندازہ ہے لہٰذا اکثر اگلے دن رشید کو مجھ سے کڑوی کسیلی باتیں سننا پڑتیں، لیکن وہ پرلے درجے کا ڈھیٹ انسان کہاں باز آنے والا تھا۔ وہ اپنی عادت سے مجبور تھا اور میں اپنی عادت سے۔ اس معاملے میں اس نے کبھی مجھے مایوس نہ کیا۔

خیر اس دن اس کے ساتھ رکھے ایک سٹول پر بالکل لاغر سا سیاہی مائل رنگت کا کمزور و نحیف بچہ بیٹھا ہوا تھا، جس کی آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔ چہرے کی ہڈیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ اس کی عمر کوئی تیرہ سے چودہ سال کے درمیان ہو گی(بعدازاں جس کی تصدیق بھی ہو گئی)۔ میں نے اس بچے کی بابت جب رشید سے پوچھا تو رشید کہنے لگا:
“صاحب جی یہ میرا اکلوتا بیٹا ارسلان ہے”۔
میرے استفسار پر مزید بتانے لگا:
“وکیل صاحب یہ بہت صحت مند تھا، پڑھائی میں بھی بہت ذہین تھا۔ لیکن اب چھ ماہ سے بیمار ہے۔ ہر دو تین دن کے بعد دورہ پڑتا ہے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے، کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے۔ بہت مشکل سے دودھ وغیرہ پلاتے ہیں ،یا پورے دن میں روٹی کے دو چار نوالے کھاتا ہے اور بس۔ پہلے یہاں ہسپتال سے ڈاکٹری علاج کروایا ہے لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، بس چند دن ٹھیک رہا پھر وہی۔ خون کے سارے ٹیسٹ نارمل آئے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں ایسا ہو گیا ہے۔ پھر جہاں کہیں بھی کوئی بتاتا ہے دم تعویز بھی کروا رہے ہیں، کبھی چند دن کیلئے ٹھیک ہو جاتا ہے اور پھر وہی حالت۔ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ بابا جی بتاتے ہیں کہ اس پر جن کا سایہ ہے اور دورے  کے دوران دراصل جن کی حاضری ہوتی ہے اور وہ جن باتیں کرتا ہے”۔
رشید رونے کے سے انداز میں کہنے لگا:
“صاحب جی بہت پریشان ہوں۔ آپ کچھ بتائیں میں کیا کروں ارسلان میرا اکلوتا بیٹا ہے”۔

میں نے غصے سے کہا:
” اس بچے نے بھی کبھی آنکھ بچا کر کوئی گندا اور باسی سیب کھا لیا ہو گا جو تم آنکھ بچا کر ہر بار مجھے شاپر میں ڈال دیتے ہو”۔

رشید کھسیانا سا ہو گیا۔ بچے کی حالت دیکھ کر میرا دل پسیج گیا۔ فوری طور پر میرے ذہن میں ایک درویش صفت سائیکا ٹرسٹ ڈاکٹر سعید الرحمن ایف سی پی ایس سکائیڑی کا نام ذہن میں آیا جو اس وقت ایک معروف نجی ہسپتال میں ہیڈ آف سائیکائیڑی ڈیپارٹمنٹ تھے۔ بہت قابل ڈاکٹر، کم گو، باریش انسان اور اللہ کے نیک بندے ہیں۔ میری ایک دو ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کی شہرت بہت اچھی سنی۔ مریض کو بہت وقت دیتے ہیں۔ میں نے رشید کو ڈاکٹر صاحب کا نام و پتہ سمجھا دیا اور گزشتہ تمام ریکارڈ ساتھ لیجانے کو کہا۔ اگلے دن چھٹی تھی۔ اس سے اگلے دن وہ دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے کو لے کر ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ تقریباً چھ سات دن بعد میری رشید سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا اب رات کو سکون سے سوتا ہے۔ کھانا پینا ابھی بھی شروع نہیں کیا۔ علاج چلتا رہا اور رشید مجھے گاہے گاہے آگاہ کرتا رہا۔ بہت مطمئن تھا۔ دو ہفتوں بعد بچے نے کھانا پینا بھی شروع کر دیا اور دوروں کا درمیانی عرصہ بھی بڑھ گیا۔ ایک ماہ کے بعد دورے رک گئے اور بچے نے سکول جانا شروع کر دیا۔

رشید دلجمعی سے علاج کرواتا رہا جو مسلسل ایک سال تک جاری رہا۔ ایک سال علاج کے بعد اس کا بیٹا مکمل تندرست و توانا تھا۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی بناء پر میری کافی عرصہ تک رشید سے ملاقات نہ ہوئی۔

ایک دن رشید کی کال آئی۔ کہنے لگا:
“تہاڈے بھتیجے دے نویں (یعنی 9th)کلاس وچوں 424 نمبر آئے نیں”(آپکے بھتیجے کے نویں کلاس میں 424 نمبر آئے ہیں)۔
یہ سن کر میرے دل کو ایک سکون سا ملا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ جنوں  بھوتوں کا بہترین علاج آجکل اچھے ڈاکٹر بھی کر لیتے ہیں۔ دم تعویز کیساتھ ساتھ اچھے سائیکا ٹرسٹ کو بھی آزمانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 😊

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply