• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا ترجمہ۔۔۔۔فصیح امام مغل

وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا ترجمہ۔۔۔۔فصیح امام مغل

میں ہمیشہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور نااہلیوں پہ تنقید کرتا ہوں ، مگر جو بات اچھی ہو گی اس کی تعریف بھی ہو گی۔ عمران خان  کی تقریر پوری قوم کے جذبات  ترجمانی ہے۔
وزیراعظم پاکستان کا مکمل اردو میں خطاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏پاکستان کی نمائندگی کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے

جنرل اسمبلی میں بہت سے مسائل پر بات کرنا چاہتا ہوں، سب سے پہلے ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات کروں گا
‏دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر سنجیدگی نہیں ہے،دنیا کے سربراہان ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھ ہی نہیں رہے،پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے 10 ممالک میں شامل  ہے،
‏پاکستانی دریاؤں میں 80فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے، صرف پاکستان ہی نہیں بھارتی گلیشیئرز سے بھی پانی ہمارے دریاؤں میں آتا ہے، گلیشیئرز بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں،‏پاکستان میں دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ بنایا ہے، کوئی بھی ملک اکیلے ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو نہیں پاسکتا،امید ہے اقوام متحدہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر آگے بڑھے گی!

‏میرے لیے دوسرا مسئلہ  اس سے بھی بڑا   ہے، ہر سال اربوں ڈالر ترقی پذیر ممالک سے منی لانڈرنگ ہوتی ہے ،ترقی پذیر ممالک کے سربراہ اربوں ڈالر بیرون ملک بھجواتے ہیں،غریب ممالک سے امیر ممالک میں منی لانڈرنگ کو مسئلہ نہیں سمجھا جاتا،‏سیاسی منی لانڈرنگ کو دہشت گردی اور منشیات کیلئے منی لانڈرنگ جتنا مسئلہ نہیں سمجھا جاتا،
پاکستان میں ٹیکس وصولی کا آدھا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے، پاکستان کے سابق حکمران ملکی دولت لوٹ کر منی لانڈرنگ کرتے رہے،‏کرپٹ لیڈرز کی جائیدادوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو امیر ممالک کے قوانین مجرموں کا تحفظ کرتے ہیں، ہمیں امیر ممالک کی مدد چاہیے، امیر ممالک کرپٹ رہنماوَں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔‏کرپٹ حکمرانوں کو رقم ٹیکس ہیونز میں لے جانے سے روکنا چاہیے، آئی ایم ایف، ورلڈبینک، ایشین بینک کو اس پر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔

تیسرے نمبر پر اسلاموفوبیا پر بات کرنا چاہتا ہوں، نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، حجاب کرنے والی مسلم خواتین کو کئی ممالک میں مسئلہ بنا دیا گیا۔
‏کچھ مغربی ممالک کے سربراہوں نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا، اس لیے اسلامو فوبیا بڑھا، اسلام وہی ہے جو حضوراکرمﷺ نے بتایا، انتہاپسند اسلام جیسی کوئی چیز نہیں، کوئی بھی شخص کیسے فیصلہ کرسکتا ہے کہ انتہاپسند اور معتدل مسلمان کون ہے؟
‏اسلاموفوبیا مسلم ممالک اور مسلمانوں میں تکلیف کا سبب ہے، مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور اس سے انتہاپسندی بڑھتی ہے، اقوام عالم کو اب اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔
‏افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم سربراہوں نے بھی اسلاموفوبیا ختم کرنے پر بات نہیں کی۔
‏تمام مذاہب کی بنیاد انصاف پر ہے، کوئی بھی مذہب شدت پسندی اور دہشت گردی کا سبق نہیں دیتا ہے، مغربی لباس پہننے اور انگلش بولنے والے مسلمانوں کو معتدل سمجھا جاتا ہے۔‏نائن الیون سے پہلے تامل ٹائیگر خودکش حملے کرتے رہے، تامل ٹائیگر ہندو تھے لیکن خودکش حملوں کا تعلق مذہب سے نہیں جوڑا گیا،‏مغرب میں بہت وقت گزارا ہے، جانتا ہوں وہ کیسے سوچتے ہیں،
1989میں توہین رسالت پر کتاب شائع کی گئی۔۔۔‏مغرب میں مذہب کو بہت مختلف نظر سے دیکھا جاتا ہے، مغرب میں سوچا گیا کہ اسلام آزادی اظہار کی اجازت نہیں دیتا،
مغرب میں مخصوص طبقات جان بوجھ کر اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔‏مغرب میں اسلام کے بارے میں عجیب چیزیں سنیں،
کہا گیا کہ اسلام خواتین کی آزادی کے خلاف ہے،ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ اسلام اقلیتوں کے خلاف ہے
‏حضور اکرم ﷺ کی زندگی قرآن پاک کے مطابق گزری، حضور اکرم ﷺ کی زندگی مسلمانوں کے لیے مثال ہے!‏ریاست مدینہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی، اسلام میں کہا گیا کہ تمام افراد برابر ہیں، اسلام بتاتا ہے کہ ہر شخص قانون کی نظر میں برابر ہے چاہے اس کا مذہب کوئی بھی ہو،
‏حضور اکرمﷺ نے کہا کہ سب سے اچھا کام غلام کو آزاد کرنا ہے، اس وقت معیشت کا انحصار غلامی پر تھا، اس لیے غلاموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔‏جب مسلم ریاست اقلیتوں کیخلاف جاتی ہے تو وہ اسلام کے خلاف جاتی ہے۔
‏پیغمبر محمدﷺ مسلمانوں کے دل میں رہتے ہیں، حضوراکرمﷺ کی توہین ہوتی ہے تو مسلمانوں کا ردعمل آتا ہے، دل کا درد جسم کے درد سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔‏

اب مسئلہ کشمیر پر بات کرنا چاہتا ہوں جس کیلئے میں یہاں آیا، جب اقتدار میں آیا تو پہلی ترجیح سب کے ساتھ امن لانا تھی۔۔۔‏ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شرکت کی، 70 ہزار پاکستانی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شہید ہوئے،80کی دہائی میں افغانستان میں لڑنے کیلئے مجاہدین تیار کیے، امریکہ اور مغرب نے فنڈ دیئے،
‏سویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ سب چھوڑ چھاڑ کر چلا گیا،
نائن الیون کے بعد پاکستان نے پھر امریکہ کا ساتھ دیا،
نائن الیون کے بعد ہمیں بتایا گیا افغانستان میں جہاد نہیں دہشتگردی ہے اس لیے امریکہ کی جنگ میں شمولیت کا مخالف تھا
‏اقتدار میں آئے تو فیصلہ کیا باقی ماندہ مسلح گروپوں کا خاتمہ کریں گے، اقوام متحدہ پاکستان میں مبصر بھیج کر دیکھے کہ مسلح گروپ ختم کر دیئے ہیں، پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی، ایرانی سرحد پر بھی باڑ لگا رہے ہیں۔
‏میرے بھارت میں بھی بہت سے دوست ہیں،اقتدار میں آتے ہی بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، بھارتی وزیراعظم کو کہا غربت اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے لڑیں،
‏مودی نے کہا پاکستان سے دہشت گرد حملے ہوتے ہیں، بھارتی وزیراعظم کو بتایا کہ بھارت سے بلوچستان میں دہشت گردی ہوتی ہے، کلبھوشن یادیو نے پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف کیا ہے،
‏بھارتی فوج پر حملہ کرنے والے لڑکے کے والد نے کہا بیٹے نے بھارتی مظالم پر ہتھیار اٹھائے، پلوامہ حملے کے بعد بھارتی نے بم گرائے،
ہم نے ان کے دو طیارے مار گرائے، ہم نے فوری طور پر ان کا پائلٹ واپس کیا کیونکہ ہم امن چاہتے تھے۔۔۔بھارت میں واویلا کیا گیا کہ پاکستان میں 50 دہشت گرد مارے،انہوں نے صرف 10 درخت تباہ کیے،
وزیراعظم مودی نے انتخابی مہم میں کہا ٹریلر دکھایا ہے پاکستان کو فلم دکھائیں گے۔‏کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو ایجنڈا سامنے آگیا،بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔۔۔۔۔اقوام عالم کو بتانا چاہتے ہیں کہ آر ایس ایس کیا ہے۔
‏آر ایس ایس کی انتہا پسند سوچ نے مہاتما گاندھی کو قتل کرایا،آر ایس ایس کے بانیوں کے نظریات دیکھ لیں حقیقت سامنے آ جائے گی
بھارتی وزیراعظم آر ایس ایس کے تاحیات رکن ہیں،‏آر ایس ایس مسلمانوں اور مسیحیوں سے نفرت کرتے ہیں،
آر ایس ایس بھارت سے مسلمانوں کا خاتمہ چاہتی ہے،آر ایس ایس ہٹلر اور نازی ازم سے متاثر تنظیم ہے
‏نریندر مودی نے گجرات میں تین دن تک مسلمانوں کا قتل عام کرایا،
برطانیہ میں80لاکھ جانور بھی بند ہوتے تو شور مچ جاتا، کشمیر میں 80 لاکھ انسان بند ہیں،
‏کیا مودی نے سوچا ہے جب کرفیو ہٹے گا تو کشمیر میں کیا ہو گا؟ نریندر مودی کرفیو کے خاتمے پر مقبوضہ کشمیر میں کیا کرنا چاہتا ہے؟
‏مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ افراد اپنی جان دے چکے ہیں، کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حقوق نہیں دیئے جا رہے، افسوس ہے کاروبار کو انسانیت پر فوقیت دی جا رہی ہے
‏دنیا نے حالات جان کر بھی کچھ نہیں کیا کیونکہ بھارت ایک ارب سے زیادہ کی منڈی ہے
‏مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹتے ہی خون بہنے کا خدشہ ہے، مقبوضہ کشمیریوں میں لوگوں کو گھروں میں بند کرکے کیا حاصل کیا جائے گا؟
کرفیو ہٹتے ہی کشمیری سڑکوں پر آئیں گے اور بھارتی فوج ان پر گولیاں برسائے گی
‏مظالم سے کشمیری شدت پسندی کی طرف جائیں گے، ایک اور پلوامہ ہوسکتا ہے؟ پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ 500دہشت گرد کنٹرول لائن پر ہیں،
9لاکھ بھارتی فوجیوں کے ہوتے ہوئے 500 دہشتگرد بھیج کر کیا چاہتے ہیں؟
‏اسلامی دہشت گردی کا الزام آتے ہی دنیا انسانی حقوق بھول جاتی ہے، بھارت پاکستان پر اسلامی دہشت گردی کا الزام لگانا چاہتا ہے،
بھارت کے پاس کچھ باقی نہیں، کرفیو ختم ہوتے ہی پاکستان پر الزام لگایا جائے گا
‏مودی کیوں نہیں سوچتے کروڑوں بھارتی مسلمان کیا سوچ رہے ہیں، بھارتی مسلمان شدت پسند بنتے ہیں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے،
الزام ہم پر آئے گا، ایک ارب 30 کروڑ مسلمان دنیا بھر میں کشمیریوں پر مظالم دیکھ رہے ہیں،
‏دنیا بھر کے مسلمان دیکھ رہے ہیں کشمیریوں پر صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم ہو رہا ہے،
اگر صرف 8 لاکھ یہودی بند ہوتے تو دنیا کے یہودیوں کا ردعمل کیا ہوتا،

Advertisements
julia rana solicitors london

‏کیا مسلمان باقی مذاہب کے افراد سے کمتر ہیں؟
اگر کشمیر میں خون بہے گا تو مسلمان شدت پسندی کی طرف جاسکتے ہیں،
‏میں کشمیر میں ہوتا اور 55 دن گھر میں بند کر دیا جاتا،
میری خواتین سے زیادتی ہوتی تو کیا میں چپ بیٹھتا،
‏کیا میں ذلت کی زندگی گزارتا،
میں بھی بندوق اٹھا لیتا۔۔۔
‏کوئی حملہ ہوا تو پاکستان پر الزام لگے گا اور 2 ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے آ جائیں گی،
1945 میں اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ایسی صورتحال کو روکنا تھا، اگر پاک بھارت میں روایتی جنگ شروع ہوتی ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے
‏ایک چھوٹا ملک لڑتا ہے تو اس کے سامنے دو راستے ہیں، ہتھیار ڈالیں یا آخری سانس تک لڑیں ،
ہم آخری سانس تک لڑیں گے، جب آخری سانس تک لڑیں گے تو نتائج کہیں زیادہ بھیانک ہوسکتے ہیں
‏وقت ہے 1939 کی طرح خوشامد نہ  کریں،
انسانیت کا ساتھ دیں، بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانا ہوگا اور سیاسی قیدی رہا کرنے ہوں گے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply