آہ! ہماری جلد بازی۔۔غلامِ صدیق

گزشتہ شب ایک واقف کار کی کال      آئی۔ پہلے تو خوب گلے شکوے کرنے لگے کہ میں دو تین دن سے آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ اسی سلسلے میں ایک بار          آپ کے گھر بھی چکر لگایا تھا مگر آپ موجود نہیں تھے۔ میں نے ان سے معذرت کی اور اپنی کچھ ذاتی مصروفیات کا بتایا جن کی بنِا پہ ان سے بات نہیں ہو سکی تھی۔ کہنے لگے آپ سے ایک کام تھا۔ کافی دن سے اس سلسلے میں آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر گھبرا رہا تھا کہ معلوم نہیں آپکو مناسب بھی لگے یا نہیں۔

نہیں، نہیں۔ ۔آپ تو ہمارے بھائیوں جیسے ہیں آپ سے کیا اجنبیت؟ آپ کے کام پہ بھلا کیوں کر انکار کریں گے؟ آپ مجھے اپنا کام عرض کریں میں نے ان کی بات  پر  جلدی سے ٹوکتے ہوئے کہا۔ مگر یہ الفاظ نکلنے ہی کی دیر تھی کہ انہوں نے کال کاٹ دی۔ کافی دیر تک رابطہ کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر ممکن نہ ہوا۔ اگلے روز ان کے گھر جاکر وضاحت کرنی پڑی اور بتایا کہ میں کہنا چاہ رہا تھا کہ آپ حکم کریں، مگر جلد بازی میں نادانستہ طور پر یہ کہہ بیٹھا کہ آپ عرض کریں۔ ایک بار پھر سے معذرت کی اور ان کا کام  معلوم کیا،جس سلسلے میں وہ مجھ سے رابطہ کرنا چاہ رہے تھے۔

خیر بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ بعض اوقات نادانستہ طور پر ہم کچھ الفاظ غور کیے بغیر ہی ادا کردیتے ہیں ،جو دیگر لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ بسا اوقات ہمارے پاس کوئی منصوبہ ہوتا ہے یا ہم کسی منزل کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں تو کامیابی کے حصول میں ہم اس قدر پُریقین ہوجاتے ہیں جس کے باعث ہم راستے، منزلیں اور پڑاؤ طے کیے بغیر ہی وہ کام ،  اور  سفر شروع کردیتے ہیں اور بعد میں جلد بازی کے نتیجے میں ہم منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی راہ کھو دیتے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ کوئی بھی جملہ بولنے سے پہلے اس کے نتائج و ثمرات کا بخوبی جائزہ لیں ۔ بعض اوقات جس سوچ کے پیش نظر ہم بیان کر رہے ہوتے ہیں یا ہماری نیت بالکل بھی ویسی نہیں ہوتی مگر موجودہ صورتحال یا سامع کی کیفیت کے مطابق وہ بات کچھ اور ہی رنگ پکڑ لیتی ہے۔ اسی طرح کوئی بھی کام کرنے، کسی بھی طرح کا فیصلہ کرنے، کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ سوچ سمجھ کر مکمل تفصیل جان کر ہی فیصلہ کریں۔ بعض اوقات ہم صرف ایک رخ کو ہی دیکھتے ہوئے کوئی بھی قدم اٹھا لیتے ہیں جو کہ حقیقت افشاں ہونے پر باعث شرمندگی بن سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم سے کسی معاملے میں دانستہ یا  نا دانستہ طور پر کوئی غلطی ہو جاتی ہے  تو بجائے اسکے کہ ہم اپنی بات کا دفاع کریں اس پہ ڈٹ جائیں، ہمیں اپنی غلطی کا ادراک ہوجانے کے  فورا ً بعد ہی معافی مانگ لینی چاہیے۔ بصورت دیگر تعلقات میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں، اور آہستہ آہستہ لوگوں کی نظروں میں ہم اپنا مقام اور وقار کھو دیتے ہیں۔

Facebook Comments

غلامِ صدیق
غلام صدیق ایم فل اسکالر (تقابل ادیان) قلم سے انکا رشتہ بہت پرانا ہے۔بچپن سے ہی مختلف رسائل کیلئے لکھتے آئے ہیں اور تادمِ تحریر مختلف علاقائی و قومی اخبارات اور میگزینز میں کالمز لکھتے ہیں. حالات حاضرہ، نفسیاتی وسماجی موضوعات پہ اپنے وسیع مشاہدات عوام الناس تک پہنچاتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply