فکشن سے آگے(2)۔۔وہاراامباکر

تصور کریں کہ ہم مریخ پر دو سو کلوگرام وزنی گاڑی بھیجنے کے بجائے ایک گیند بھیجتے ہیں۔ اتنی چھوٹی جو ایک سوئی کی نوک پر سما جائے۔ اپنے ارد گرد پائے جانے والی ذرائع سے توانائی استعمال کرتے ہوئے، یہ گیند تقسیم ہو جاتی ہے اور مزید ایسی گیندیں سے بننی لگتی ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے سے چپکے رہتے ہیں۔ اور ان میں سے فیچر ابھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پہیے، عدسے، درجہ حرارت ناپنے کے سنسر، راہنمائی کا اندرونی سسٹم۔
یہ اس قدر حیران کر دینے والا مستقبل ہو گا جس کو سائنس فکشن رائٹر بھی اپنی کہانیوں میں نہیں لکھتے لیکن یہ اتنا حیران کن کیوں ہے؟ ایسا مشاہدہ کرنے کے لئے ہم ایک روتے ہوئے نوزائیدہ بچے کو دیکھ سکتے ہیں جس نے اپنا سفر ایک خوردبینی فرٹیلائز ہو جانے والے بیضے سے کیا تھا۔ یہ ایک بالغ انسان بننے کی راہ میں ہے جس میں فوٹون ڈیکٹکٹ کرنے والے آلات ہیں۔ کئی جوائنٹ والے اعضاء، پریشر کی پیمائش کرنے والے سنسر، خون کا پمپ اور اپنے ماحول سے توانائی اخذ کر لینے والا سسٹم۔
ہمارا وجود وہ معجزہ ہے جو سائنس فکشن رائٹرز کے تخیل کی پرواز سے آگے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس کہانی کا بہترین حصہ یہ والا نہیں۔ اس سے حیران کن یہ ہے کہ ہماری مشینری مکمل طور پر پروگرام شدہ نہیں ہے بلکہ دنیا سے انٹرایکشن کے ذریعے اپنی شکل بدلے گی۔ جس طرح ہم بڑے ہوتے ہیں، دماغ کا سرکٹ مسلسل اپنے آپ کو تبدیل کرتا ہے۔ مواقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے پاس کے سماجی سٹرکچر کو بھی سمجھتا ہے۔
ہماری نوع نے پورے کرہ زمین کے ہر گوشے پر کامیابی سے غلبہ جما لیا ہے کیونکہ ہم فطرت کے ڈیزائن کی دریافت کردہ اعلٰی ترین چال کا نتیجہ ہیں۔ “دماغ میں سکرپٹ پہلے سے نہ ڈال دیا جائے۔ اس میں صرف بنیادی بلڈنگ بلاک ہوں اور اسے دنیا میں بھیج دیا جائے”۔ یہ بچہ ابھی رونا بند کرے گا۔ اِدھر اُدھر دیکھے گا اور دنیا کو جذب کرے گا۔ یہ اپنے ماحول کے حساب سے خود کو ڈھالے گا۔ اس نے مقامی زبان سے لے کر وسیع تر کلچر اور عالمی سیاست تک سب کچھ سیکھنا ہے۔ جنہوں نے اس کی پرورش کی، اس کے پاس ان سے آنے والے یقین بھی ہوں گے، تعصبات بھی ہوں گے۔ ہر دلکش یاد، ہر سیکھا ہوا سبق، علم کا ہر قطرہ۔ یہ سب اس کے سرکٹس کو تراشے گا۔ یہ سب کچھ یہ بچہ اپنے ساتھ نہیں لایا تھا۔ یہ بچہ اپنے گرد کی کی دنیا کا عکس ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام معلوم دنیا میں ہم نے ابھی تک جو کچھ بھی دریافت کیا ہے، پیچیدگی کے معیار سے ہمارے دماغ کا پاسنگ بھی کچھ نہیں۔ اس کے خلیوں کے درمیان انفارمیشن کا تیزی سے تبادلہ ہو رہا ہے۔ اس کے نیورن ایک دوسرے کے ساتھ جنگل جیسے باریک سے نیٹورک کی صورت میں ہیں۔ اور ان کے آپسی کنکشن سینکڑوں ٹریلین کی تعداد میں ہیں۔ اس کو تصور کرنے کے لئے: ایک مکعب ملی میٹر کورٹیکل ٹشو میں اتنے کنکشن ہیں جو دنیا کی انسانی آبادی سے بیس گنا ہے۔ لیکن ان کی تعداد ان کو دلچسپ نہیں بناتی بلکہ ان کا آپس میں ملکر کام کرنا اس کی دلچسپ شے ہے۔
کتابوں میں، اشتہارات میں اور پاپولر کلچر میں دماغ کو ایسے عضو کے طور پر دکھایا جاتا ہے جس کے الگ حصے الگ کام کرتے ہیں۔ فلاں علاقہ بصارت کے لئے۔ فلاں کا تعلق اوزار استعمال کرنے سے۔ فلاں اس وقت حرکت میں آتا ہے جب آپ میٹھا منع کر رہے ہیں۔ فلاں اس وقت روشن ہوتا ہے جب آپ کسی اخلاقی الجھن کا شکار ہیں۔ ان علاقوں پر لیبل لگا کر ان کی کیٹیگریاں بنائی جاتی ہیں۔
لیکن اس کا یہ وضاحتی ماڈل ناکافی ہے اور اس کہانی کا سب سے دلچسپ حصہ نہیں بتاتا۔ دماغ جامد شے نہیں، ایک ڈائنامک سسٹم ہے جو ماحول اور جسم کی صلاحیت کے مطابق خود کو تبدیل کرتا ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی جادوئی کیمرہ ہو جو اس کی جیتی جاگتی، خوردبینی کائنات کو دکھا سکے تو آپ دیکھیں گے کہ نیورونز کے ڈانڈے پھیل رہے ہیں، ایک دوسرے کو پکڑ رہے ہیں، دوسرے کو محسوس کر رہے ہیں، ٹکرا رہے ہیں۔ ٹھیک کنکشن بنا لینے اور کچھ کو توڑ دینے کی دوڑ میں ہیں۔ جس طرح کسی ملک کے شہری دوستیاں، شادیاں، ہمسائیگیاں، سیاسی جماعتیں، انتقامی گینگ اور سوشل نیٹورک بناتے ہیں۔ دماغ کو ایک دوسرے میں الجھے کھربوں جانداروں کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکسٹ بک کی تصویر سے زیادہ عجیب ہے۔ دماغ ایک پرسرار قسم کا کمپیوٹیشنل میٹیریل ہے جو تین ڈائمینشل کی چادر ہے جو جگہ تبدیل کرتی ہے، ری ایکٹ کرتی ہے اور خود کو ایڈجسٹ کرتی ہے تا کہ اس کی ایفی شنسی زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔ اس کے کنکشن کا وسیع پیٹرن زندگی سے بھرپور ہے۔ کنکشن، بغیر کسی تعطل کے، مسلسل بن رہے ہیں، مر رہے ہیں اور بدل رہے ہیں۔ آج پچھلے سال اس وقت جو شخص تھے، وہ اب نہیں ہیں۔ کیونکہ دماغ کے اس بہت بڑی چادر نے اپنے آپ کو کسی اور طرح بُن لیا ہے۔ کچھ اور نقش و نگار بنا دئے ہیں۔
جب آپ کچھ نیا سیکھتے ہیں۔ کسی نئے ریسٹورانٹ کی خبر، اپنے باس کے بارے میں کوئی چٹپٹی گپ شپ، ریڈیو پر کسی نئے گانے کی دھن ۔۔۔ یہ دماغ کو فزیکلی تبدیل کر دیتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مالیاتی کامیابی، معاشرتی ناکامی یا جذباتی آگاہی ہو، تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب آپ کرکٹ میں چھکا لگاتے ہیں، اپنے دوست سے بحث کرتے ہیں، نئے شہر جاتے ہیں، ماضی کی کسی فوٹو پر نظر جماتے ہیں، کسی عزیز شخص کی آواز سنتے ہیں ۔۔۔ دماغ کے اس جنگل میں معمولی سی ترمیم ہو جاتی ہے۔ ایک لمحے پہلے کے مقابلے میں یہ بدل جاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں یادیں ہیں۔ ہماری زندگی اور ہماری محبتیں ہیں۔ منٹ در منٹ، ماہ در ماہ اور دہائیوں میں یہ ہمارا یہ عضو ایسے ہی تراشا جاتا رہتا ہے۔ اور ان تبدیلیوں کا مجموعہ وہ شے ہے جو “آپ” ہیں۔
نہیں، یہ بھی درست نہیں۔ ان تبدیلیوں کا مجموعہ وہ شے ہے جو “آپ اس وقت” ہیں۔ گزشتہ کل آپ تھوڑے سے مختلف تھے۔ اور آنے والے کل آپ تھوڑے سے مختلف ہوں گے۔

Facebook Comments