کہا تھا اُس نے کہ چین میں چومتے نہیں ہیں
کہا تھا میں نے کہ چومنا فطرتاً روا ہے
کہا تھا اُس نے کہ ہونٹ اس کے چھوئے نہیں ہیں
کسی نے اب تک
کہا تھا میں نے یہ تجربہ خوشگوار ہو گا
وہ چُپ رہی تھی
تو میں نے بانہوں میں
پھول جیسے بدن کو بھر کر
بڑے تحّمل سے
پنکھڑی جیسے نچلے لب کو
چھوا تھا ہونٹوں سے
ایک لمحے کے لاکھویں حصے کے لیے ہی
وہ بند آنکھیں جھپک کے جیسے
طویل عرصے کی نیند سے چونک سی گئی تھی
کھُلے ہوئے ہونٹ پر تحّیر کی ایک ہلکی لکیر سی تھی
رضا یہ ضمنی تھی، خود ارادی تھی
یا موّلف تھی اور بوسوں کے تجربے کی؟
یہ میں نہیں جانتا تھا، لیکن
اُسے پتہ تھا
کہا تو تھا اُس نے ۔۔۔چین میں چومتے نہیں ہیں!
1973ء
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں