دانش صدیقی ، صحافت کاایک اور شہید۔۔منصور ندیم

یہ پوری دنیا میں زمانہ ماضی کی طرح اصول ہے کہ سفیر ہمیشہ صرف سفارتی سطح پر نمائندے سمجھے جاتے تھے، انہیں کوئی بھی فریق نہیں سمجھتا تھا وہ باوجود ایک فریق کے نمائندے ہونے کے صرف پیغامبر سمجھے جاتے تھے، آج کی دنیا میں یہ اسٹیٹس صحافیوں کے لئے ہے، ویسے بھی جنگوں کے دوران ہونے والی رپورٹنگ جنگ زدہ علاقوں میں ہی ہوتی ہے اور یقیناً صحافی حضرات اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایسے جنگ زدہ علاقوں میں جاتے ہیں، صحافیوں کو خبروں اور حقائق جاننے کے لئے اکثر جو  ذرائع ملتے ہیں، ان حالات میں وہ اسے ہر طریقے سے avail کرتے ہیں، صحافی کا کسی بھی ملک یا کسی ایک فریق کی طرف سے ہونے کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ صحافی خود بھی اس جنگ میں ایک فریق ہے۔ بلکہ وہ غیر جانبدار ہی کہلاتا ہے۔ جیسے ہمارے ملک کے ایک صحافی اے آر وائی سے تعلق رکھنے والے فیض اللہ بھائی سنہء 2013 میں رپورٹنگ کے لئے افغانستان میں گرفتار کئے گئے بعد ازاں انہیں بہت مشکل سے رہائی ملی تھی، ویسے ہی اسامہ بن لادن کا انٹرویو ایک رابرٹ فسک نامی صحافی نے دو دفعہ کیا تھا، اس سے یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا تھا کہ رابرٹ فسک نظریاتی طور پر ‘القاعدہ” کا یا فیض اللہ بھائی تحریک طالبان پاکستان کے نمائندے ہیں۔

ایسے ہی برطانیہ کے مشہور میڈیا کے معروف ادارے روئٹرز کے ساتھ وابستہ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی جن کا بنیادی تعلق ہندوستان سے تھا، دانش صدیقی گزشتہ چند روز سے جنوبی افغانستان کے ضلع قندھار میں پیدا ہونے والی صورت حال کی کوریج کر رہے تھے وہاں اپنی صحافتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے وہ افغانستان کے علاقے سپن بولدک میں موجود تھے جب وہاں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان گذشتہ چند دن سے جاری جھڑپوں کے دوران ہلاک ہوئے، دانش صدیقی ہندوستان کے شہر دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ سے معاشیات میں گریجویٹ تھے اور سنہء ۲۰۰۷ میں اسی یونیورسٹی سے انہوں نے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ دانش صدیقی نے اپنا صحافتی سفر ٹیلی وژن نمائندے کے طور شروع کیا لیکن جلد ہی وہ فوٹو جرنلزم کی جانب منتقل ہو گئے تھے۔ سنہء ۲۰۱۰ میں دانش صدیقی انٹرنی کے طور پر خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے۔

دانش صدیقی نے سنہء ۲۰۱۶ اور سنہء ۲۰۱۷ میں موصل جنگ میں بھی اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھائی تھیں، اور اپریل سنہء ۲۰۱۵ میں نیپال کا زلزلہ اور روہنگیا پناہ گزینوں کے بحران کی کوریج سے بھی شہرت حاصل کی تھی۔دانش صدیقی نے سنہء ۲۰۱۹ اور ۲۰۲۰ ہانک کانگ میں پھوٹنے والے مظاہروں اور سنہء ۲۰۲۰ میں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ہوئے فسادات سمیت جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ سے متعلق کئی اہم سٹوریز پر کام کیا تھا۔ سنہء ۲۰۱۸ میں روئٹرز کے لیے روہنگیا مہاجرین کی بحران کی فیچر فوٹو گرافی کی بنیاد پر انہیں پلٹزر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور یوں وہ اور ان کے ساتھی عدنان عابدی پُلٹزر پرائز حاصل کرنے والے اولین ہندوستانی صحافی بن گئے تھے۔ سنہء ۲۰۲۰ میں دہلی فسادات سے متعلق ان کی ایک تصویر کو روئٹر کی جانب سے سال سنہء ۲۰۲۰ کی عکاسی کرنے والی تصاویر میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ دانش صدیقی انڈیا میں روئٹرز کی پکچرز ٹیم کے  سربراہ بھی تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دانش صدیقی کی ہلاکت کی خبر سامنے آنے کے بعد سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ ان کے صحافتی کام کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ مگر افسوس ہوتا ہے، ہمارے ہاں جہالت اور کم علمی کے مظاہرے پر کہ ایک ہندوستانی صحافی مارا گیا، صحافی صرف اپنے کام سے مخلص ہوتا ہے، اسے کسی جانبداری یا ملکی سیاست سے نہیں جوڑا جاسکتا، ہندوستان میں افغان سفیر فرید ماموند زئی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’دانش صدیقی قندھار میں فرنٹ لائن پر رپورٹنگ کرتے ہوئے ہلاک ہوئے ہیں اور میں اپنے دوست کی ہلاکت پر شدید صدمے میں ہوں، اس کے علاوہ خود افغان طالبان نے بھی اس پر شدید افسوس کا اظہار کیا۔ طالبان کے اسپوک پرسن” ذبیح اللہ مجاہد”  کا کہنا ہے وہ اس معاملے سے لا علم تھے کہ وہاں پر کوئی صحافی بھی موجود تھا۔ انٹرنیشنل لاء بھی تنازع کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کی حمایت کرتا ہے۔ ورنہ جنگ کی رپورٹنگ دنیا میں کبھی ممکن ہی نہ ہو۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ خوشیاں منارہے ہیں، کسی مسلمان کی موت پر اس لئے خوشی کا اظہار کرنا کہ وہ دو مسلمان گروہوں کے تنازعہ میں سے آپ کے نا پسندیدہ گروہ کے ساتھ اپنی پروفیشنل ذمہ داری ادا کر رہا تھا، کم ازکم یہ ایک ناقابل قبول بربریت کا عمل ہے، یہ اسلام نہیں بلکہ انسانیت کی تحقیر اور وحشت کا مظاہرہ ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply