کیا محبوب بے عیب ہوتا ہے؟۔۔ابصار فاطمہ

دوران محبت ہمیں محبوب اور محبوبہ تمام عیبوں سے پاک کیوں لگتے ہیں اور رشتہ ختم ہوتے ہی یا کوئی سوشلی مضبوط رشتہ بنتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ فریق اتنا اعلی اور بہترین نہیں جتنا ہم سمجھتےتھے۔ آیئے اس کے طبعی معاشرتی اور نفسیاتی پہلو پہ غور کرتے ہیں۔

جناب پہلا قدم تو ہے جسمانی کشش کا جو کہ پہلے بھی ایک پوسٹ میں بتلایا جا چکا ہے کہ کچھ کیمیکل ری ایکشن ہمیں محبت کے جذبے کا احساس دلاتے ہیں ان کی بنیاد وہ حساب کتاب ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ایک صحت مند تعلق استوار ہوتا ہے اور ایک صحت مند نسل وجود میں آتی ہے۔

اس کے بعد وہ بنیادی نفسیاتی پہلو ہے جس کی نشاندہی کے لیئے سوال کیا گیا۔ کہ ہمیں وہ خامیاں یا خرابیاں نظر کیوں نہیں آتیں جو کہ اس شخص میں موجود ہوتی ہیں تو جناب انسان ایک ایسے معاشرے میں رہتا ہے جہاں کچھ رشتوں کا ایک دوسرے پہ انحصار انسان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ آپ نے عموما ً یہ بات سنی ہوگی کی ماں کو تو اپنا لنگور بھی شہزادہ لگتا ہے۔ یہ وہ unconditional positive regard ہے جو کہ ممتا کے لیے انتہائی ضروری ہے جب تک ماں اپنی اولاد کہ لیے یہ بے لوث محبت نہیں رکھے گی تب تک وہ ان کی اس پیمانے پہ نگہداشت نہیں کر پائے گی جو ایک نوزائیدہ بچے کی نگہداشت کے لیے ضروری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ غلطیوں سے صَرِف نظر کرنے والی محبت ہمیں ہر ماں کی طرف سے نظر نہیں آتی جس کا نتیجہ  عموماً  اولاد کی ماں سے دوری کی صورت میں  نکلتا ہے مگر اس کا مطلب اولاد سے محبت میں کمی ہرگز نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ بچوں کی نفسیاتی مسائل سے لاعلمی اور ناموزوں معاشرتی معیار ہیں جن پہ اولاد کو پورا اتروانے کے لیئے وہ اولاد سے نامناسب سختیاں کر جاتی ہے۔ یہی معاملہ باپ کی محبت میں بھی ہے کہ ان کا بنیادی مقصد اولاد کو ایک بہترین انسان بنانا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی بچوں کی نازک نفسیات سے لاعلمی انہیں اولاد سے دور کردیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات تھوڑی دور نکل گئی تو واپس آتے ہیں کہ جس طرح والدین کی محبت خاص کر ماں کی محبت میں اولاد کی غلطیاں نوٹ نہ کرنا اس رشتے کی نفسیاتی ضرورت ہے اسی طرح ہمارا دماغ ہر نیا رشتہ بناتے وقت یہ حربہ استعمال کرتا ہے۔ تاکہ نیا بننے والا رشتہ مضبوط ہوسکے ۔ چاہے وہ نئے دوست ہوں یا محبوب و محبوبہ۔ ہمارا دماغ رشتہ کو حتی الامکان حد تک لڑائی جھگڑے سے پاک رکھنے کے لیئے چھوٹی موٹی غلطیوں کو بالکل نظر انداز کردیتا ہے۔ یا ان سے الجھن محسوس نہیں کرتا۔ اس کے بعد باری آتی ہے معاشرتی پہلو کی ۔۔ اس مرحلے تک ہر محبت سچی ہوتی ہے اس کے بعد ہمارے معاشرتی اصول اور اقدار محبت کی پائیداری کو چیک کرتے ہیں۔ اچھی طرح پٹخ پٹج کر اس کی مضبوطی دیکھتے ہیں۔ یعنی جیسا کہ سوال کے ڈسکشن پارٹ میں کہا گیا کہ شروع شروع میں سب اچھا کا بورڈ لگایا جاتا ہے اس کی وجہ بھی ایک مضبوط تعلق بنانے کی کوشش ہے مگر یہ اچھی اور معیاری کوشش نہین چائینا کی کوشش ہے تو اس چائنا کی کوشش کا نتیجہ  یہ نکلتا ہے کہ ہم سامنے والے سے خود جھوٹ بولتے ہیں اور اس سے سچ کی توقع کرتے ہیں اور جوں ہی رشتہ یا تو ٹوٹ جائے یا مزید مضبوط ہوجائے اور ٹوٹنے کا خوف نہ رہے تو یہ جھوٹ کے سائن بورڈ اتار دیئے جاتے ہیں اور اپنی غلطی تسلیم کیئے بغیر فورا ً سامنے والے پہ الزام لگایا جاتا ہے کہ تم برے ہو تم نے دھوکہ دیا۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرتی مسائل ہیں جہاں بچپن سے ہم یہ دیکھتے آتے ہیں کہ اہمیت یا تو پیسے کی ہے یا ذہانت کی یا ظاہری شخصیت کی اور ہم صرف اپنے لیئے کی گئی محبت کو معاشرے میں میڈل کے طور پہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب سچی محبت معاشرے کے معیاروں پہ پرکھی جاتی ہے تو غیر معیاری لگتی ہے۔ کبھی لڑکی کا رنگ دبتا ہوا ہوتا ہے یا بال کم گھنے ہوتے ہیں تو کبھی لڑکے کی تنخواہ کم ہوتی ہے یا ذات اعلیٰ  نہیں ہوتی۔ ایسے ہی بہت سے مسائل ارینج میریجز میں بھی سامنے آتے ہیں اور شادی کرتے وقت جو برائیاں نظر انداز کی جاتی ہیں وہ ہاتھی بن کے نظر آتی ہیں۔ نتیجہ یا تو رشتے کا اختتام ہوجاتا ہے یا پھر ایک اور ایسی نسل وجود میں آتی ہے جو رشتوں کے حوالے سے مسائل اور الجھن کا شکار ہوتی ہے۔ مگر اس کے برعکس جب دونوں فریق محبت کو اولیت دیں تو دماغ اپنا کام بخوبی کرتا رہتا ہے اور ایک طویل مضبوط اور پر مسرت رشتہ وجود میں آتا ہے اور ایک بہتر نسل پرورش پاتی ہے۔ جو اعتبار اور محبت کرنا جانتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply