دوسرا نکتہ ایمان بالغیب کا ہے۔
نظریہ ارتقا اور بیگ بینگ تھیوری اپنے آثار و شواہد کی بنا پر تسلیم کیے گئے ہیں۔ یہی ایمان بالغیب ہے۔ ان پر اب ایسا تیقن ہو چکا ہے کہ ان کا انکار کرنا مضحکہ خیز سمجھا جاتا ہے۔ آثار و شواہد کی بنا پر کسی ایسے نتیجے پر پہنچنا جس سے ان آثار و شواہد و مظاہر کی توجیہ ہو جائے، اور خود اس نتیجہ یا نظریہ کو مشاہدہ اور تجربہ کر کے پرکھا نہ جا سکے، اسے ایمان بالغیب کہتے ہیں۔ خدا پر ایمان لانے کے لیے انسان کی اسی فیکلٹی کو استعمال کیا گیا ہے۔
ہم جانتے ہیں کائنات کا وجود اپنی تخلیق کی توجیہ چاہتا ہے۔ انسان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس کی توجیہ کرے اور بتائے کہ کس طرح ایک معنی خیز کائنات وجود میں آئی ہے جس کے مختلف اجزا باہم مل کر نہایت پیچیدہ نتائج پیدا کرتے ہیں۔ یہ مشاہدہ ہے کہ کائنات کے مختلف اجزا ایک مہا منصوبے میں باہم بندھے ہوئے ہیں۔ یہ منصوبہ کہیں کامل اور کہیں ناقص ریاضیاتی بنیادوں پر قائم ہے، مگر ہے بے حدپیچیدہ، کرشماتی اور حیرت افزا۔
اس تخلیق اور مہا منصوبے کے پیچھے کسی باشعور ہستی کو فرض کرنا ہے یا بے شعور قوت کو؟ ساری بحث بس یہی ہے۔ انسان جس نتیجے پر بھی پہنچے، وہ ایمان بالغیب ہی کا نتیجہ ہوگا، کیونکہ خدا ہو یا بے شعور قوتیں ان کو یہ سب برپا کرتے ہوئے انسان نے نہیں دیکھا۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ زیادہ معقول بات کیا ہے؟ یہ تخلیق اور منصوبہ کسی ذی شعور ہستی کا ہے یا بے شعور قوتوں سے پیدا ہونے والا اتفاقی حادثہ؟ اس سوال کا معقول جواب کیا ہونا چاہیے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
قرآن اسی استدلال پر مبنی ہے کہ یہ سب برپا کرنے والی ایک زندہ باشعور ہستی ہے جس نے یہ سب ایک مقصد کے تحت برپا کیا ہے۔ یہ ایک علمی مقدمہ ہے۔
کوئی اس نتیجے کو مانے یا نہ مانے مگر اس مقدمے کو غیر علمی نہیں کہا جاسکتا۔ کوئی اگر پھر بھی مُصر ہے کہ خدا پر ایمان بالغیب غیر علمی مقدمے کا نتیجہ ہے تو اسے معلوم نہیں کہ علمی مقدمہ ہوتا کیا ہے۔ یہ دیانت دار ذہن نہیں ہے، یہ متعصب ذہن ہے جس کے آزار کا چارہ اس کے سوا کسی اور کے پاس نہیں۔
تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا تیرے سوا تیرے سوا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں