افغانستان-تصویر کا دوسرا رخ۔۔رعایت اللہ صدیقی

پڑوسی قوتیں اگرچہ یہ اعتراف کرنے کیلئے تیار نہیں ورنہ یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ افغان آرمی نے انتہائی دلیری کے ساتھ ان پر حملہ آور جنگجوؤں کا مقابلہ کیا ہے اور انہیں جگہ جگہ گھیر کر شدید نقصان پہنچایا ہے۔
شاید دور کے ڈھول پر ناچنے والوں کی طرح خود ان جنگجوؤں کا بھی یہی خیال تھا کہ ہم نے امریکہ کو بھگادیا تو افغان آرمی کیا چیز ہے۔

افغانستان کے 421 اضلاع ہیں اور ایک ضلع پاکستان کی دو یونین کونسلوں کےبرابر ہے اسے اولسوالی کہتے ہیں۔
پچھلے تین ماہ کی لڑائی میں سٹوڈینٹس نے کوئی ایک سو ایک السوالیوں پر قبضے کا دعویٰ  کیا ہے۔ لیکن آزاد ذرائع ان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر رہے بلکہ صرف 58اضلاع پر ان کا تسلط تسلیم کرتے ہیں ۔جبکہ ان اضلاع کے بھی بعض حصے سرکاری سکیوریٹی اداروں کے کنٹرول میں ہیں۔
لیکن کیا وہ یہ کنٹرول برقرار رکھ پائیں گے۔ یہ وہ سوال ہے جس نے اسٹوڈینٹس کو سخت اضطراب اور پریشانی میں مبتلا کئے رکھا ہے۔کیوں؟

اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ ان ملے جلے اسٹوڈنٹس کی مجموعی تعداد 55 ہزار سے 62 ہزار کے درمیان ہے۔اور اس تعداد میں بھی افغان فورسز کی کاروائیوں کے نتیجے میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔

افغان ذرائع کا دعویٰ  ہے کہ پچھلے تین ہفتوں میں زمینی اور فضائی کارروائی کے نتیجے میں 7329 جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں، 4187 زخمی اور927 کو زندہ گرفتار کیا جاچکا ہے یا انہوں نے از خود ہتھیار ڈالے ہیں۔ اگر 58 اولسوالیوں پر بھی سٹوڈنٹس کا قبضہ تسلیم کرلیا جائے تو گویا ہر اولسوالی میں ان کی تعداد سات آٹھ سو سے زیادہ نہیں۔ان جنگجوؤں کے پاس نہ تو ٹینک ہیں نہ بکتربند گاڑیاں نہ دوسرا کوئی بھاری اسلحہ۔ کیونکہ وہ اب تک ایک گوریلا جنگ لڑ رہے تھے اور گوریلا جنگ میں ہلکے اسلحہ کے ساتھ فوری لوکیشن بدلنا پڑتی ہے اور بھاری اسلحہ کا کنٹرول اور نقل و حمل ممکن نہیں ہوتا ہوائی جہازوں اور ٹینکوں کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن افغان آرمی کے پاس جدید لڑاکا طیارے، تربیت یافتہ پائلٹ ٹینک اور دیگر بھاری اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہے۔ افغان آرمی کی باقاعدہ تعداد 2لاکھ چھ ہزار ہے اور پولیس کے نوجوانوں کی تعداد 139000 ہے افغان ایئر فورس کے نوجوانوں کی تعداد 9600 ہے

یہ کُل تعداد 352000 بنتی ہے جن کے پاس ہر قسم کا جدید اسلحہ موجود ہے اور جو بہترین کمیونیکیشن کے آلات سے لیس ہیں۔ گویا تمام اضلاع پر اس تعداد کو تقسیم کرلیا جائے تو فی ضلع 969 افرادی قوت حکومت کو حاصل ہے جبکہ قومی لشکر اس کے علاوہ ہے جو عوام پر مشتمل ہے اور جو اپنے فورسز کا ساتھ دینے کیلئے ہمہ تن تیار ہے۔یہ لشکر پانچ سو کی تعداد میں ہر اولسوالی میں موجود ہے۔ تو گویا ایک السوالی کی حفاظت کیلئے حکومت کے پاس 1400 کی افرادی قوت موجود ہے۔ فیصلہ کن قوت افغان فضائی قوت ہے جس سے بچنے کی کوئی سبیل ان جنگجوؤں کو نظر نہیں آرہی وہ صرف اور صرف عام آبادی میں چھپ کر ان سے اپنا دفاع کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں لیکن عام آبادی تو ان کی مخالف ہے لہذا یہ آپشن بہت کم کام کا رہتا ہے۔

یہ ہے وہ حقیقی تصویر جو میڈیا عوام کی نظروں سے چھپا رہا ہے۔
افغان حکومت اگرچہ بظاہر مذاکرات کا واویلا کرتی دکھائی دے رہی ہے تاکہ سافٹ امیج خراب نہ ہو لیکن درون خانہ وہ اس خرابی کو جڑ سے ختم کرنے کی خواہش رکھتی ہے تاکہ روز روز کی چخ چخ ختم ہو۔ لیکن بیرونی دنیا خاص کر امریکہ داعش کے طرز پر ان کا وجود برقرار رکھنا چاہے گی داشتہ بکار آید۔ کہ جب ضرورت ہوگی تو خطے کے ممالک کے خلاف انہیں استعمال کیا جاسکے۔
اسٹوڈنٹس نے غیر  ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا عوامی رائے عامہ کو نظرانداز کیا اور اب ہر گذرتے دن کے ساتھ ان کے ہاتھ میں پتے کم ہوتے جارہے ہیں۔ انہیں جلد از جلد فیس سیونگ کی کوشش کرکے سائیڈ پر ہونا چاہیئے ورنہ افغان آرمی اور عوام ان کا جو حشر کریں گے اس پر تاریخ تادیر اپنا سر پیٹتی رہے گی۔ جو عالم فتح کرنے چلے تھے انہیں اپنے گھر کی بھی خبر نہ تھی۔ اور خبر ہو بھی کیسے ان کی بڑی تعداد تو اس گھر سے تعلق ہی نہیں رکھتی۔دوسرا انہیں اندازہ ہی نہیں ہورہا کہ کون انہیں کس مقصد کیلئے استعمال کر رہاہے اور وہ آخر لڑ کیوں رہے ہیں ۔دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔

طالبان کے اندر جو باشعور طبقہ ہے وہ یہ حقیقت سمجھ رہا ہے کہ اب ان کی پوزیشن نوے کی دہائی میں لڑنے والے مجاہدین کی سی ہے جو تخت کابل پر قبضے کیلئے ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے۔ گرچہ پاکستانی علما  میں سے کسی بڑے عالم ِ دین نے تاحال ان کے خلاف کوئی فتویٰ  نہیں دیا ہے لیکن ان علما  کی طرح باقی عالم ِ اسلام کے علما اپنے منہ میں  کنکریا ں  ڈالے نہیں بیٹھے۔ وہ اسے فساد قرار دے رہے ہیں خود افغانستان کی داخل میں علما  سٹوڈنٹس کی اس موجودہ روش کو جہاد کی بجائے فساد قرار دے رہے ہیں۔ علما کے ان رویوں کا بھی سٹوڈنٹس کے مورال پر نہایت منفی اثر مرتب ہورہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آنے والے دنوں میں یہ تحریک زمین بوس ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور قومی جذبے سے معمور افغانستان انگڑائی لیتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ قوم پرستانہ جذبہ جب کسی قوم میں اجتماعی شکل میں بیدار ہوتا ہے تو دنیا کے نقشے پر جدید جرمنی اور جاپان وجود میں آیا کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply