آزادی کے بغیر جشن آزادی۔۔مظہر اقبال کھوکھر

ہم 75واں یوم آزادی ایک ایسے وقت میں منا رہے ہیں۔ جب وطن عزیز تاریخ کے بد ترین سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ہر گزرتے دن کا سورج ایک نئی آس اور امید کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اور ایک نئی یاس اور نا امیدی کے ساتھ غروب ہوجاتا ہے۔ عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بھوک ، غربت ، بے روزگاری اور مہنگائی کے اس طوفان میں اپنی سانسیں کیسے بحال رکھی جائیں جبکہ سیاستدانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اپنا اقتدار کیسے بحال رکھا جائے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارے فیصلوں سے کسی کی زندگی پر کیا اثر پڑتا یا ہماری پالیسیوں سے کسی کا مستقبل کتنا تاریک ہوتا ہے۔

ابھی گزشتہ دنوں جب ہم 85 کروڑ روپے کی لاگت سے ملک میں جشن آزادی کی مختلف تقریبات کے انتظامات کر رہے تھے، تو فیصل آباد سے ایک دل ہلا دینے والی خبر آئی کہ حالات سے تنگ آکر رانا عتیق نامی ایک شخص نے  اپنی دو بچیوں کے گلے چھری سے کاٹ کر خود بھی خود کشی کر لی۔ اس نے ایک درد ناک آڈیو اور خون میں لت پت خط چھوڑا۔ جس میں کہا کہ قرض اور حالات سے تنگ آ چکا ہے۔ مزید یہ کہ ہماری میتوں کو ایدھی ٹرسٹ کے حوالے کیا جائے، تاکہ ہم پر کسی کا احسان نہ ہو ۔

یہ ایک عتیق کی کہانی نہیں بلکہ اس ملک کے ہزاروں لاکھوں عتیقوں کی کہانی ہے جو   زندہ رہنے کی کوشش میں ہر روز مرتے ہیں۔ تین معصوم لوگوں کی موت کی ذمہ داری سے جہاں ہمسائیوں ، رشتہ داروں اور پورے معاشرے کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا مگر سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں ریاست کی کیا ذمہ داری ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست کے کسی ذمہ دار نے فیصل آباد کے المناک سانحہ پر ذمہ داری قبول کرتے ہوئے معافی مانگنے کے بجائے خود کشی کرنے والے رانا عتیق پر ہی قتل کا مقدمہ درج کر لیا۔

یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کا ہم 75 واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ جس کی آزادی کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانی دی ، تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی ، کئی خاندان اجڑ گئے ، کئی مائیں بچوں سے ، بچے والدین سے ، بہنیں بھائیوں سے، بھائی بہنوں سے اور اولاد ماں باپ سے بچھڑ گئی۔ لاکھوں خواتین کی عصمت دری ہوئی ، انسانی خون کی ندیاں بہائی گئیں مگر آج جب ہم 75 سال بعد دیکھتے ہیں تو انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ نہ  تو ہم اسلامی ہیں اور نہ ہی جمہوری ہیں ، نہ ہی آئین اور قانون کا احترام ہے اور نہ پارلیمنٹ کی بالادستی ، نہ ہی ووٹ کی عزت ہے نہ ہی ووٹر کے کوئی حقوق ، آئین کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے جو چاہتا ہے جب چاہتا ہے موم کی ناک کی طرح آئین کو موڑ دیتا ہے بلکہ توڑ موڑ دیتا ہے۔ عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ ادارے کمزور اور شخصیات مضبوط ہورہی ہیں۔ سیاست میں خدمت ختم اور سیاہ ست کاریاں زیادہ ہوگئیں ہیں۔ جو ایک بار سیاست میں آ جائے اس کی نسلیں سنور جاتی ہیں اور عوام نسل در نسل غلام ہوتی جارہی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہیں۔ کئی جماعتیں مرکز میں اتحادی ہیں کسی کے پاس پنجاب ، خیبر پختون خوا، کسی کے پاس سندھ ، گلگت اور کئی جماعتیں بلوچستان میں اتحادی ہیں۔ تمام جماعتیں اقتدار میں تو آگئی ہیں مگر اقدار سے گزر گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے قوم کی حالت اور ملک کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی رسہ کشی عروج پر ہے۔ ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔

ایک طویل عرصہ مذہبی شدت پسندی کا شکار رہنے والا ملک ان دنوں سیاسی شدت پسندی کی زد میں ہے۔ نفرت اور عدم برداشت معاشرے کو تباہی کے گڑھے میں دھكیل رہے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کی کرپشن، غیر اخلاقی یا غیر قانونی عمل پر بات کی جائے تو وہ معذرت کرنے کے بجائے جواز میں کہتے ہیں کہ دوسرے بھی تو کرتے ہیں یعنی ہر شخص کے پاس جرم کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ دوسرے بھی تو کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج جب ہم 75 واں یوم آزادی منا رہے ہیں کاش کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور مقتدر قوتوں کو اس بات کا احساس ہوتا کہ ہمارا معاشرہ تباہی کے کس دہانے پر کھڑا ہے۔ مگر مفادات اور ذاتیات کی اس جنگ میں قومی مفادات کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے 75 سالوں سے بظاہر ہم آزاد تو ہیں مگر ہماری سوچ آج بھی غلام ہے ہماری پالیسیاں اور ہمارے فیصلے آج بھی غلام ہیں۔ ہم چاہے جتنے جشن منا لیں جتنی بڑی تقریبات کر لیں مگر ہماری آزادی اور خود مختاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی وہ تمام جماعتیں اقتدار میں ہیں جو اپنے ہر بیان میں یہ دعوے کرتی تھیں کہ اگر انہیں اقتدار مل جائے تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گی مگر آج سب کی نظریں آئی ایم ایف کی اس قسط پر لگی ہوئی ہیں جو ایک طویل عرصے سے معطل ہے اور اسے بحال کرانے کے لیے آئی ایم ایف کا ہر حکم مان رہے ہیں۔ ایک لمحے کو غور کیجئے جب ہماری معیشت کو چلانے کے فیصلے باہر ہوتے ہوں ، جب کس کو سزا ہونی ہے اور کس کو بیرون ملک بھیجنا ہے اس کے فیصلے باہر ہوتے ہوں ، جب اقتدار میں لانے اور نکلانے کے فیصلے کہیں باہر ہوتے ہوں، اور عوام کا کام محض ووٹ دینا ، نعرے لگانا ، جھنڈے لگانا ، ٹیکس دینا ، قربانیاں دینا اور تنگ آکر خود کشیاں کرنا ہو تو پھر کیسی آزادی اور کیسا جشن آزادی۔۔؟

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply