ایک عام عورت کا خاص انٹرویو۔۔آنسہ ر انا

کسی اخبار کے رپورٹر کو ایک گھریلوعورت کا انٹرویو کرنے کا کہا گیا۔۔۔اسں رپورٹر کو کامیاب عورتوں کے انٹرویو کرنے کا تجربہ تو تھا مگر ایک عام گھریلو عورت سے انٹرویو پہلی مرتبہ کر رہا تھا اور اسے کوئی سوالات سمجھ نہیں آ رہے تھے تو پڑھئےکہ وہ کیا پوچھ پایا۔۔۔
(پاکستان کی کل آبادی میں تقریباً اڑتالیس فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ جن میں سے صرف چھیالیس فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے اور ان میں سے صرف بائیس فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں۔ باقی اٹھہتر فیصد آبادی کی نمائندہ یہ خاتون کچھ ان کہی باتیں کہہ رہی ہیں۔آپ بھی پڑھیے۔)
رپورٹر:آپ کا نام کیا ہے؟
خاتون:زوجہ فلاں۔
رپورٹر:نہیں!مطلب ان کی زوجہ ہونے سے پہلے آپ کا کیا نام تھا؟
خاتون:دخترفلاں ابن فلاں۔
رپورٹر:جی!جی! آپ ان کی ہی بیٹی ہیں مگر وہ آپ کو کسی نام سے تو پکارتے ھوں گے نا۔
خاتون:آپ کو میرا نام پوچھ کر کیا کرنا ہے؟ ویسے بھی آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میرا نام نہیں آئے گا۔
رپورٹر:جی میں اپنے وعدے پر قائم ہوں اگر آپ کا نام معلوم ہو جائے گا توآپ سے بات کرنے میں سہولت ہو جائے گی۔
خاتون: (الجھن بھرے انداز میں)  ! ثریا بی بی۔
رپورٹر: جی ثریا بی بی آپ کیا کام کرتی ہیں؟
خاتون: میں تو جی کچھ بھی نہیں کرتی۔
رپوٹر: مگر آپ نے تو بتایا تھا کہ گھر کےسب کام آپ خود کرتی ہیں۔
خاتون: اچھا آپ گھر کے کاموں کا پوچھ رہے ہیں وہ سارے کام تو میں ہی کرتی ہوں لیکن اصل کام مطلب نوکری وغیرہ نہیں کرتی۔
رپورٹر: تو بی بی گھر کے کام بھی تو اصل کام ہی ہوتے ہیں۔
خاتون: مگر ان کو کام کون سمجھتا ہے؟ کام تو صرف وہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کے پیسے ملیں ۔گھر کے کام تو سمجھیں عورت کا فرض ہے کہ وہ بیمار ہو،اوازار ہو،مر رہی ہو،مگر اسے کرنے ہوتے ہیں۔
رپورٹر: جی بالکل مردوں کو کام سے چھٹی مل جاتی ہے۔ مگر عورت کو چھٹی نہیں ملتی۔
خاتون:عورت کا کام، کام ہی نہیں ہوتا ،تو چھٹی کس بات کی؟
رپورٹر: آپ نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی سفر کیا ہے؟
خاتون:جی کرتے ہی رہتے ہیں۔
رپوٹر:نہیں (سنسی خیز انداز میں)کوئی ایسا سفر جس میں آپ کو خوف آیا ہوں کہ آپ کسی انجان جگہ پر انجان لوگوں میں جارہی ہیں، یعنی آپ کو پتہ ہی نہ ہوکہ وہاں آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
خاتون:(سوچتے ہوئے) “ایک سفر تھا ایسا”
رپورٹر:(جوش سے) کون سا سفر؟ کہاں گئی تھی آپ؟
خاتون : “رخصتی کا سفر” بابا کے گھر سے شوہر کے گھر کا سفر۔ بہت خوف آ رہا تھا۔ میں وہاں کسی کو نہیں جانتی تھی۔ بس علاقے کا نام ہی سنا ہوا تھا ۔ وہ جگہ میرے لیے انجان تھی ۔ اور جس کے ساتھ میں رخصت ہو کر آئی تھی اس کے نام کے علاوہ اس کے بارےمیں کچھ نہیں جانتی تھی۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ مجھے وہاں کیسے لوگ ملیں گے۔ وہ میرے ساتھ کیسا سلوک کریں گے؟اجنبی لوگ،اجنبی رشتے،اجنبی جگہ ،بہت خوفزدہ تھی میں۔۔
خاتون کی بات کی گہرائی نے کچھ لمحوں کے لیے رپورٹرکو خاموش کر دیا۔پھر اس نے اگلا سوال کیا۔
رپورٹر: اگر آپ کوڈر لگ رہا تھا ، تو آپ نے منع کیوں نہیں کیا؟
خاتون: ابو نے کہا کہ میں نے تمہیں حمید کے نکاح میں دے دیا ہے۔ اب تمہیں اسی کے ساتھ رہنا ہے،تو میں کیسے منع کرتی؟ہم لڑکیوں نے تو ایک دن جانا ہی ہوتا ہے نا۔
رپورٹر:دیکھیں میں ایک مرد ہوں،مضبوط ہوں ،کماتا ہوں، کسی کا محتاج نہیں ہوں،پھر بھی اگر مجھے کوئی ایسے کہیں جا کر رہنے کو کہے، تو میں تو کبھی نہ جاؤں،صاف انکار کر دوں۔
خاتون:آپ مضبوط ہیں، خود مختار ہیں،جبھی تو آپ کو کوئی لے کر نہیں جائے گا۔ اپنے گھروں میں تو اس کو لایا جاتا ہے ۔جو کمزور ہو،جو دب سکے، محکوم رہ سکے،آپ کے کسی غلط کو غلط نہ کہہ سکے، پھربیٹے تو آپکی طاقت ہوتے ہیں۔اپنی طاقت کون کسی دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔ بیٹیاں کمزور ہوتی ہیں اسلیے انہیں کوبھیجا جاتا ہے اور انہیں کو اپنے گھروں میں لایا جاتا ہے۔ویسے بھی گھر بنانے کا ہنر صرف لڑکیوں کے پاس ہوتا ہے۔اور وہی ہجرت کا بار اٹھانے کے قابل ہوتی ہیں۔
رپورٹر:کیا آپ نے زندگی میں کبھی کوئی ایسا ایڈونچر کیا ہے جس میں آپ کی جان کو خطرہ ہو؟
خاتون:جی ہاں! چار بچے پیدا کیے ہیں۔ہرمرتبہ ہی لگتا تھا کہ بس اب وقت آگیا ہے۔ لیکن شکر ہے اللہ کا ،کہ اپنے بچے پالنے کی مہلت ملی ہوئی ہے۔
رپورٹر؛ کیا آپ بڑے ہو کر کچھ بننا چاہتی ہے؟
خاتون: چالیس سال عمر ہے۔ چار بچوں کی ماں ہوں اور کیا بن سکتی ہوں؟
رپورٹر:زیادہ عمر کا مطلب ہے سمجھدار ہونا اور چار بچوں کی ماں، مطلب زیادہ تجربہ کار ہونا،تو یہ دونوں خوبیاں تو آپ کو کچھ بننے میں مدد دیں گی۔
خاتون:( ہنس کر) جو بننا تھا بن چکی بس۔۔۔۔
رپورٹر: جب جھوٹی تھی تب کیا بننا چاہتی تھی؟
خاتون:کچھ بھی نہیں!
رپورٹر: پھر بھی کوئی خواب تو ہوگا آپ کا؟
خاتون:(سوچتے ہوئے ) خواب! ہاں جب میں پڑھتی تھی تو میرا خواب تھا کہ ٹیچر بنوں۔ مگرپڑھائی ختم ہوتے ہی شادی ہوگئی۔ اورسب خواب کھو گئے۔
رپوٹر:خواب کیسے کھو سکتے ہیں ؟
خاتون:کھو جاتے ہیں،خواب بھی کھو جاتے ہیں،لوگوں سے نبھانے کے چکر میں،بندہ ہی کھو جاتا ہے ،خوابوں کا کیا ہے۔
رپورٹر:کیا آپ اپنے آپ سے خوش ہیں؟
خاتون:(سوچتے ہوئے )شاید نہیں۔
رپورٹر:کیوں؟
خاتون : میری خوشی اور غم مجھ سے زیادہ دوسروں کے رویوں پر منحصر ہے۔ مجھ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اگر وہ سب خوش ہیں تو مجھے بھی خوش ہونا چاہییے اور اگر وہ سب ناخوش ہیں تو مجھے بھی ناخوش ہونا چاہییے۔ بیس سال گزارنے کے بعد بھی مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ میرا مزاج دوسروں کے موڈ کے تابع کیسے ہو سکتا ہے۔
رپورٹر:کیا آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی بیٹی آپ جیسی زندگی گزارے۔
خاتون:نہیں! میں چاہتی ہوں کہ وہ ذمہ داریوں کی بھیڑ میں خود کو نہ بھولے۔وہ یاد رکھے کہ وہ کون ہے،اسکے کیا شوق ہیں،کیا خواب ہیں،وہ کیا کرنا چاہتی ہے؟تاکہ وہ صرف زندہ نہ رہے بلکہ وہ اپنی زندگی بھرپور طریقے سے جئے۔
رپورٹر: آپ خواتین کو کوئی پیغام دینا چاہتی ہیں؟
خاتون: اپنے خوابوں کو کھونے نہ دینا۔۔۔۔
رپورٹر:شکریہ
خاتون: میرا نام نہ لکھیے گا۔کہیں میرے گھر والوں کو خبر نہ ہو جائے کہ یہ سب میں نے آپ سے کہا ہے۔۔۔
رپورٹر:جی!بے فکر رہیے۔ یہ ایک بے نام انٹرویو ہے۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply