سفرنامہ روس (حصّہ اوّل، دوئم)۔۔سیّد مہدی بخاری

حصّہ اوّل۔۔ہاں ابھی تو میں بھی ہوں

کئی برس بیتے، تب لہو جسم کی نالیوں میں یوں دوڑتا تھا کہ نہ سرد ہوا کاٹنے کو آتی نہ ہی تپتی لو کے تھپیڑے محسوس ہوا کرتے تھے۔ تب ساری کائنات جوان تھی۔ سرد صبحوں میں ابھی افق روشن نہ ہوا کرتا ، خلقت گرم کمروں کے نرم بستروں پہ سوئی ہوتی، میں چپکے سے اپنی موٹرسائیکل گھر سے باہر یوں نکالتا کہ جیسے چور کوئی دبے پاوں کھسکنا چاہے۔ منہ اندھیرے بیمار اماں اور تندرست بیوی کو اپنی آمد و رفت سے جگانا معیوب سا لگتا تھا۔ کچھ یہ بھی کہ گر اماں کی آنکھ کھل جاتی تو وہ آواز دے کر پوچھا کرتی ” مہدی ، تو اس وقت کہاں جا رہا ہے ؟ جیکٹ پہنی ہے ناں ؟ ” ۔۔ پھر اماں کے کمرے میں جا کر انہیں تسلی کروانا پڑتی کہ دیکھ لو سب کچھ پہنا ہے، میں بس ہیڈ مرالہ تک دریائے چناب کے کنارے فوٹوگرافی کر کے آیا امی۔ آپ سو جائیں۔
لال یاماہا تیزی سے ہوا کو کاٹتا بھاگتا رہتا۔ مجال ہے جو کبھی سردی محسوس ہوئی ہو۔ ذہن میں اک ہی سودا رہتا کہ آج فلاں مقام سے تصویر لینی ہے، یوں لینی ہے، یوں کرنا ہے اور یوں کر کے رہنا ہے۔ رستہ پلان ترتیب دیتے بیت جاتا۔ سیالکوٹ شہر سے دریائے چناب کا کنارا 30 کلومیٹر کی مسافت پہ تھا۔ ہیڈ مرالہ پہنچنے تک بھنویں و پلکیں اوس سے بھیگ چکی ہوتیں۔ یاماہا سٹینڈ پر لگا کر لاک کرتا۔ اک بار اپنی جیکٹ کو اتار کر زور سے ہوا میں پٹکتا تا کہ اس پر رکی اوس اک بار بہہ نکلے۔ چہرے کو کپڑے سے صاف کر کے یاماہا کی ٹینکی میں پھنسا دیتا۔ یہ کپڑا میرا چہرہ و یاماہا دونوں کی جھاڑ پونچھ کے کام آتا تھا۔
کمر پر کیمرا بیگ لٹکائے۔ دبے پاوں چلتے۔ دریائے چناب کے کنارے کنارے اگ آئی لمبی جھاڑیوں و سرکنڈوں کے بیچ اپنے بیٹھنے کو جگہ کی تلاش شروع ہوتی۔ منہ اندھیرے جھاڑیوں میں چلنا ایک مشقت بھرا عمل ہوا کرتا۔ آل اطراف نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات۔ ایک سنسنی خیز سنسناہٹ میرے قدموں کی چاپ سے ہی ابھرتی تھی۔ دھند کچی لسی پر در آئی جھاگ کی مانند دریا کے سفید پانیوں پر ٹھہری ہوتی۔ دریا علی الصبح رکا ہوا سا لگتا تھا۔ اس کے پانی سورج نکلنے سے قبل سفید دکھا کرتے۔ ان جھاڑیوں کے عین سامنے ایک چوکی ہوا کرتی۔ یہ خفیہ والوں کا ٹھکانہ تھا جو بیراج کی حفاظت کے ساتھ غیر معمولی نقل و حمل پر نظر رکھا کرتے۔
خفیہ والوں کو بخوبی معلوم تھا کہ اس وقت کون شخص یہاں کیمرا لئے آیا کرتا ہے۔ ان کے پاس میرا سارا ریکارڈ موجود تھا۔ کبھی کبھی چوکی کا صدر دروازہ کھلتا۔ سول لباس میں ملبوس اہلکار ٹارچ ہاتھ میں لئے باہر نکلتا۔ میرے یاماہا پر ٹارچ مارتا اور یہ جان کر کہ کون آیا ہے وہ واپس اندر چلا جاتا۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ وہ منہ میں دبائی سیٹی بجا دیتا۔ جیسے ہی سیٹی کی آواز دھماکے کی مانند گونجتی، گھاس پھوس و جھاڑیوں کے جھنڈ سے کونجوں کے غول پھڑپھڑاتے اور پھر یکے بعد دیگرے یہ کونجیں ہوا میں غول در غول اڑنے لگتیں۔ سیٹی بجنے پر مجھے سخت غصہ آیا کرتا۔
میں دبے پاوں ان جھاڑیوں میں علی الصبح اس لئے تو آتا تھا کہ سورج طلوع ہونے سے قبل خود کو کیمو فلاج کر کے کہیں ٹھکانہ بنا کر بیٹھ جاوں۔ جیسے ہی روشنی پھیلنے لگتی، ان جھاڑیوں میں چھپے کونجوں کے غول نکلنے لگتے۔ آسمان ان سے بھر جاتا۔ دریا کے پانیوں میں روانی آ جاتی۔ سطح آب پر مرغابیوں کے جھنڈ تیرنے لگتے۔ ایک ایسا سماں تخلیق ہونے لگتا جیسے مالک ابھی فرما رہا ہو “کن فیکون” ۔۔ یہ جو اہلکار کبھی کبھی سیٹی مار دیتا تھا اس سے ڈر کر کونجوں کے غول منہ اندھیرے ہی اڑ جایا کرتے۔ پھر وہ ایک طویل چکر کاٹتے۔ اپنے آل اطراف کا جائزہ لیتے۔ کچھ دیر بعد پھر سے اپنے ٹھکانوں پر اترنے لگتے۔ ان کے ٹھکانے لمبی جنگلی گھاس کے یہی جھنڈ تھے جن میں سے ایک کے اندر میں چھپا ہوتا۔
طلوع آفتاب کا وقت قریب آنے لگتا تو ان جھاڑیوں میں ہلچل سی مچ جاتی۔ یوں جیسے زلزلہ آنے کو ہو۔ گھاس کے لمبے تنکے سرسرانے لگتے۔ گمان ہوتا کہ تیز ہوا ان کو لہرا رہی ہے مگر ہوا کہاں ہوتی ؟ ۔۔ کونجوں کے اندر بے چینی پھیلنے لگتی تو وہ بیدار ہونے لگتیں۔ ان کی ہلچل سے یہ گھاس کے جھنڈ لہرانے لگتے۔ جیسے جیسے سورج نکلنے لگتا، اک اک کر کے غول پانی کی سطح پر آنے لگتے ، پھر جہاز کی مانند دو ٹانگوں پر پانی کی سطح پر دوڑنے لگتے، کچھ دور تک دوڑتے اور پھر قطار اندر قطار اڑان بھر لیتے۔ کیمرے کا شٹر گرتا جاتا۔ شٹر سے نکلتیں کڑک کڑک کڑک اور کونجوں کی پھڑ پھڑ پھڑ کی آوازیں مکس ہونے لگتیں۔
پھر سورج چڑھ آتا۔ دریا کے اوپر پھیلی دھند پر پیلاہٹ چھانے لگتی۔ کبھی کبھی یوں لگتا جیسے سونا دریا پر بکھرا ہوا ہے۔ روپہلی سنہری کرنوں میں نہا کر دھند کی تہہ سنہری ہو ہو اٹھتی۔ عقب میں دور کہیں جموں کے برفپوش پہاڑ ہیولے سے نظر آنے لگتے۔ یہ پیر پنجال کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا، دھند چھٹتی جاتی، مطلع صاف ہوتا جاتا۔ پیر پنجال کی برفپوش پہاڑیاں شفاف دکھنے لگتیں۔ ان کی چوٹیوں پر رکی ہوئی برف سورج کی کرنوں سے چمکنے لگتی۔
صبح کے سات بجنے تک ہیڈمرالہ کے اطراف ہلکی ٹریفک شروع ہو جایا کرتی۔ لوگ اپنے اپنے کاموں کا رخ کرنے لگتے۔ میں کیمرا سمیٹتا جھاڑیوں سے نکلتا اور سڑک کنارے لگے بینچوں میں سے اک بینچ پر آ بیٹھتا۔ یہ بینچ بلدیہ نے لوگوں کی تفریح و آرام کی خاطر دریائے چناب کے کنارے ہیڈ مرالہ کے مقام پر بنا دیئے تھے۔ صبح کے وقت وہاں میرے سوا کوئی نہ ہوتا تھا۔ سرد صبحوں میں ان بینچوں پر بیٹھے میں نے کئی سو دنوں کی حدت سمیٹی ہے۔
کبھی کبھی خفیہ والا اہلکار چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے سڑک عبور کر کے میرے پاس آ جاتا۔ مجھ سے سگریٹ مانگتا۔ میں اسے بخوشی سگریٹ دیتا۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو اس کا نام صبور علی تھا۔ چالیس کے پیٹے میں ہو گا۔ چہرے پر نسیں ابھر آئی تھیں۔ مسلز کھچے ہوئے تھے۔ جسم کی ساخت مضبوط چٹان کی مانند ہوا کرتی تھی۔ قد چھ فٹ سے قدرے لمبا۔ بال گھنے کالے۔ مونچھیں گہری و گھنی۔ سگریٹ وہ مٹھی میں دبا کر پیتا تھا جیسے بزرگ حقے کا کش مارتے ہیں۔
“ہو گئی تیری فوٹوگرافی؟ تینوں کی لبھدا اے فوٹواں کھچ کے ؟ شہروں ٹر کے توں سویرے سویرے منہ ہنیرے آنا ایں۔ اے کی لت تینوں لگی ہوئی اے ؟ ” ۔ کش مارتے وہ اکثر یہی سوال الفاظ بدل کر آئے دن پوچھا کرتا۔
“ہاہاہاہا۔ بس چاچا، شوق دا کوئی مل نئیں۔ ” میں مسکرا کر اسے لگ بھگ یہی جواب دے دیا کرتا۔
شوق کا کوئی مول نہیں۔ صبور علی سے راہ و رسم ان دنوں کافی بڑھ چکی تھی۔ اک دن وہ نجانے کس موڈ میں تھا۔ ایسے ہی بینچ پر بیٹھے اس نے مجھے اپنی محبت کی کہانی سنا دی۔ کہانی کے مطابق صبور کو جس سے محبت ہوئی تھی وہ خاندان کی لڑکی تھی مگر اس فیملی کی جس کو گاوں میں لوگ “شریکا” کہتے ہیں۔ سو لاکھ کوششوں و منت و بسیار کے باوجود اس کا نکاح کہیں اور کر دیا گیا۔ صبور علی کو وہ بھولی نہیں تھی۔ کبھی کبھی صبح سویرے جب دریا پر کونجیں اڑتیں وہ ان کو دیکھتا اور مجھ سے مانگے ہوئے ادھارے سگریٹ کے کش لگاتے کہتا “ہائے ہائے۔۔۔ شوق دا کوئی مل نئیں پترا ۔۔۔ “
اک دن صبور علی اداس سا تھا۔ سگریٹ کا کش مارتے بولا ” اے مرغابیاں کتھوں آندیاں نیں ؟ تینوں کج پتا ہے گا ؟ یار۔۔ بڑا درد ہوندا ایناں دی آواز وچ”۔۔
“ہاں، چاچا، درد تو ہے ان کی آواز میں۔ یہ سائبیریا سے آتی ہیں چاچا”۔ میں نے اسے سنجیدہ سا جواب دے دیا۔
“سائبیریا ؟ او کتھے ہے گا ؟ ” ۔
“چاچا۔۔ بہت دور ہے۔ پانچ چھ ہزار کلومیٹر ہوا میں۔ زمین سے فاصلہ ماپو تو مزید ہو گا”۔۔
“آلا ۔۔۔ چل سانوں کی ؟ اسی کیہڑا اوتھے اپڑ جانا اے۔ جے تیرا کدی چکر لگے تے مینوں آ کے دسیں ایناں دا ملک کنج دا اے” ۔۔۔ صبور علی نے حسب معمول مٹھی میں سگریٹ دبائے لمبا کش کھینچتے کہا۔
“اچھا۔۔ سانوں کی چاچا ۔۔ ” میں نے ہنستے ہوئے کہا تا کہ اس کی سنجیدگی رفع ہو سکے۔
مرغابیوں و کونجوں و راج ہنسوں سمیت دریا پر اترنے والے یہ پرندے مہمان پرندے تھے۔ سائیبریا کی گھاس کی ڈھلوانوں پر جب برف گرنے لگتی اور درجہ حرارت منفی چالیس کو چھونے لگتا، یہ پرندے ہجرت کرتے۔ لمبی اڑان بھرتے۔ ملکوں کو عبور کرتے یہ گرم پانیوں کی تلاش میں نکل آتے۔ کچھ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر اتر جاتے۔ کچھ سندھ کی منچھر و کینجھر جھیلوں پہ ڈیرہ ڈالتے اور کچھ پنجاب کے میدانوں کی جانب آن نکلتے۔ موسم سرما ان کا یہیں بسر ہوتا۔ مارچ کے وسط سے یہ دوبارہ ہجرت کر کے واپس اپنے دیس سائبیریا جانے لگتے۔ ان کے غول اڑان بھرنے لگتے۔ بوڑھے بزرگ پرندے واپس جانے کے قابل نہ ہوتے تھے۔ وہ یہیں دریا میں رہ جاتے۔ ان کو چھوڑ کر جب جھنڈ واپسی کی اڑان بھرتا تو بچھڑ جانے والوں کی یاد میں کرلاتا جاتا۔ ایسی وحشت انگیز و افسوسناک آوازیں ان کی حلق سے نکلتیں کہ سارے میں اداسی پھیل جاتی۔
وہیں دریا کنارے بینچ پر بیٹھے میں نے کرلاتی ہوئی کونجوں کو سنا ہے۔ درد کی ایک سیٹی ہے جو ہوا سے دل میں اترتی جاتی ہے۔ ان پرندوں کے توسط سے سائبیریا سے میرا پہلا تعارف ہوا تھا۔ اس خطے میں دلچسپی پیدا ہوئی جو ان پرندوں کا اصل دیس تھا۔ کئی سال یہ خواہش دل میں کروٹ بدلتی رہی کہ خدا مجھے اک بار سائبیریا دکھا دے۔ میں بس ان پرندوں کے دیس ویسے ہی جانا چاہتا تھا جیسے یہ میرے دیس میں آتے ہیں۔ کچھ دن، کچھ یادیں سمیٹنے، کچھ رشتے بنانے، کچھ سکون کرنے اور پھر واپس ہو لیتے ہیں۔
مسافر اور پرندے میں کئی باتیں مشترک ہوا کرتی ہیں۔ دور کی اڑان بھرنا، ان دیکھی زمینوں کی جانب سفر کرنا، نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا، ملنا، بچھڑنا ، اڑتے رہنا۔۔۔ کسی کے واسطے یہ نہیں رکا کرتے۔ میں ان گھاس کی ڈھلوانوں میں جانا چاہتا تھا جو ان کی ملکیت ہیں۔ جن کی چاہ میں یہ کرلاتے رہتے ہیں۔ خواب جب تعبیر بننے لگے تو انسان کے اندر دھمال پڑنے لگتی ہے۔ جس دن روس کا ویزا پاسپورٹ پر لگا ملا اس دن مجھے لگا کہ اب میں ان کی زمینوں پر کچھ دن مہمان ہوں گا۔ بال تراشے، کپڑے بدلے، سامان پیک کیا۔ آگے دریائے چناب کی کونجیں تھیں جنہوں نے میرا استقبال کرنا تھا۔ آنکھوں میں چمک تھی۔ جسم میں ویسی ہی توانائی بھر آئی تھی جیسے برسوں قبل ایک نوجوان سرد صبحوں میں لال یاماہا دوڑاتا ان سے ملاقات کو جایا کرتا تھا۔ آگے روس تھا۔ ذہن میں ن م راشد کے مصرعے تھے۔
ہاں،ابھی تو میں بھی ہوں
ہاں، ابھی تو تم بھی ہو

حصّہ دوئم۔۔تین گیت ہیں 

یہ ماہ جون تھا۔ چناب کے کنارے لو چل رہی تھی۔ دور بہت دور، سائبیریا کی پہاڑی ڈھلوانوں پر پھول کھلنے کے دن تھے۔ میرا نام رول کال میں درج ہو چکا تھا۔ کونجوں کا بلاوا آ چکا تھا۔ سامان پیک ہونے لگا تھا۔ مسافر کا سامان بھی کیا ہوتا ہے ؟ یہی چند جوڑے کپڑے، ایک والکنگ سٹک اور کیمرا۔ میری زندگی میں تین ہی گیت ہیں جن کو میں آج تلک ہر حال ہر پس منظر میں گنگناتا آیا ہوں۔ ایک گیت ہے سفر کا، جس کی لے کبھی مدھم نہیں پڑتی۔ روس کا سفر درپیش ہوا تو وہ تمام بیتے لمحے اک اک کر کے دھیان میں آنے لگے جو دریائے عاشقاں کنارے مہمان پرندوں کے ساتھ بیتے تھے۔ دریائے چناب سے دریائے انگارہ تک کا کوچ نقارہ بج رہا تھا۔ پرانے لوگ کیا دھنی لوگ تھے۔ دریاوں کو یوں تقسیم کیا کرتے۔
راوی راسقاں
سندھ صادقاں
چناب عاشقاں
یہ جو چناب تھا یہ میرا عشق تھا۔ یہیں پر میری پہلی ملاقات پرندوں سے ہوئی تھی۔ اب مجھے دریائے انگارہ کا مہمان بننا تھا جو سائبیریا کے اندر بہتا ہے۔ دریا کی جون طغیانی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل بائیکال سے نکل کر یہ دریا اپنے نام کے برعکس ٹھنڈا یخ ہے مگر اپنی روانی میں شوریدہ ، تند و تیز ہے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ دریا میرا کیسے استقبال کرے گا۔ بس اک گیت کی لے تھی جو تیز ہوئی جاتی تھی۔ پہلا گیت، سفر کا گیت۔۔۔
دوسرا گیت مجھے میری ماں نے سنایا تھا۔ ابھی جسم لاشعور و شعور کے بیچ ہی کروٹ لے رہا تھا کہ ماں نے میرے سامنے کتابوں کا ڈھیر رکھ دیا تھا۔ عمر کیا تھی ؟ مڈل کا لڑکا جسے یہی حیرت کھائے جا رہی تھی کہ چہرے پر ہلکی مونچھیں کیوں نکل آتی ہیں۔ ابھی ذہن اپنی ذات کی حد سے باہر نہیں نکلا تھا۔ دنیا بچے کے لئے ایک بڑا سمندر تھی اور وہ ساحل پر کھڑا اندازے لگانے میں مگن تھا۔ میٹرک تک آتے آتے اماں کی لائی کئی کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ اور کتابیں کیا تھیں ؟ یہی کچھ افسانے، کچھ شاعری، کچھ ناول۔۔ سچ پوچھو تو اس عمر میں آدھی سے زیادہ کتابوں کی سمجھ بھی نہ آتی تھی۔
اماں مرحومہ سرکاری سکول میں سائنس ٹیچر تھیں۔ وہ سکول لائبریری سے افسانے، ناولز، تنقیدی ادب، فلسفہ و شاعری کی کتب گھر لایا کرتیں اور مجھے تھماتے ہوئے کہتیں ” شام ڈھلے کرکٹ کھیل کر گھر آنے سے بہتر ہے یہ کتابیں پڑھا کر” ۔ اب مجھے سمجھ آتی ہے کہ وہ بس اپنے اکلوتے بیٹے کو انسان بنانا چاہتی تھیں۔ جون ایلیا کے بقول
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدہ عشرت انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا
پہلا لفظ لکھنا ماں نے سکھایا، پہلی غیر نصابی کتاب ماں نے ہاتھ میں تھمائی۔ اماں مجھے کورس کی کتابوں کے علاوہ کوئی رسالہ یا کتاب پڑھتا دیکھتیں تو ان کے چہرہ گلاب کی مانند خوشی سے سرخ ہو جاتا۔ یہ میری خوش قسمتی کہیئے کہ میری تربیت ایک استاد اماں نے کی۔ وہ لفظوں کا خزانہ، وہ جملے تراشنے کا فن شاید قبل از میٹرک ہی میرے لاشعور کا حصہ بن چکا تھا۔ یہ جو زندگی کا دوسرا گیت ہے ترتیب کے لحاظ سے لکھوں تو یہ پہلا گیت تھا۔ اس کو گنگناتے کچھ ہوش سنبھالا تو کئی ادیب دھن بن کر سامنے آئے۔ میں ان کو گنگنانے لگا۔ ان میں اک حمزہ رسول توف تھا۔
دور، بہت دور ، روس کی زمینوں میں سے اک زمین داغستان ہے۔ کوہ قاف کے پہاڑوں میں گھرے اس خطے کے ایک وسیع پہاڑی میدان میں سدا نامی گاوں واقع ہے۔ اس گاوں میں چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنا اک ہے جو اپنے آس پڑوس میں بنے گھروں سے کسی طور مختلف نہیں۔ وہی ہموار چھت، چھت پر اک روشن دان جس سے کرنیں چھن چھن کے اندر داخل ہوتی ہیں، ویسا ہی پھاٹک اور چھوٹا سا صحن لیکن اس چھوٹے سے داغستانی گھر سے، اس چھوٹے سے سنگین پہاڑی آشیانے سے پرواز کر کے اک شاعر، ادیب، دانشور نکلا اور دنیا کے ادبی آسمان پر پر پھیلائے تیرنے لگا۔ یہ حمزہ رسول توف تھا۔ حمزہ کی کتاب “میرا داغستان” اس سے تعارف کا پہلا حوالہ بنی تھی۔
یہ جو گیت ماں نے سنایا تھا اس کی لے کبھی مدھم تو کبھی تیز رہا کرتی تھی۔ کبھی یوں ہوتا کہ زندگی کا پہیہ کاوش روزگار میں تیز گام ریل کی مانند دوڑنے لگتا تو کتابیں کہیں پیچھے رہ جاتیں، زندگی کے ہنگام آگے نکل جاتے۔ اور کبھی فرصت کی گھڑیاں نصیب ہوتیں تو زندگی جیسے پلیٹ فارم پر آن لگتی، کتابیں جھولی میں آن پڑتیں۔ روس سے ادبی حوالے سے پہلا تعارف حمزہ رسول تھا۔ لیو ٹالسٹائی، میکسم گورکی، چیخوف، پوشکن، ولادیمیر ویسوٹسکی، میخائل شولوخوف اور فیودر دوستوئیفسکی سے آشنائی بہت بعد میں ہوئی۔
جس دن روس کا ویزا لگا، دوسرے گیت کی لے پہلے گیت کے برابر ہونے لگی۔ کانوں میں اک شور سا سنائی دینے لگا۔ دھڑکنیں ڈرم بیٹ کی مانند بجنے لگیں۔ میں اک ایسی سرزمین پر جا رہا تھا جس کے قدرتی حسن نے دنیا کو جھیل بائیکال و سائبیریا عطا کیئے تھے۔ وہیں ادب کا اک ذخیرہ بھی موجود تھا۔ وہی کتابیں جو مجھے اماں کی شکل میں دکھتی تھیں۔
آپ کو اس سے بڑھ کر خوشی کیا مل سکتی ہے کہ جو آپ چاہتے ہوں وہ آپ کو عطا ہو جائے ؟ سائبیریا تھا، بائیکال تھی، حمزہ رسول کا دیس تھا۔ انہی کے بیچ اماں مرحومہ بھی تھی۔
“تو نے ہوم ورک ختم کر لیا ہے ؟ خبردار جو کرکٹ بیٹ کو ہاتھ لگایا۔ پتا نہیں یہ کونسا کھیل ہے جس میں انسان مر سکتا ہے”۔ اماں کی یہی آواز ہر شام 5 بجے آیا کرتی۔ اک بار کرکٹ کھیلتے، بیٹنگ کرتے ، کرکٹ بال میرے نازک مقام پر آن لگی تھی۔ وہ رات ہسپتال میں درد کے مارے کرلاتے بیتی۔ اماں کے ذہن سے وہ بات نہیں نکل سکی تھی۔
“ہاں امی کر لیا ہے۔ کرکٹ نہیں کھیلنے جا رہا، فٹ بال کھیلتے ہیں ہم”۔ میں روز اماں کو ڈاچ کروا کے نکل جاتا اور کرکٹ کھیلتا۔ مغرب کے وقت واپسی ہوتی۔
“تو نے کتابیں پڑھ لی ہیں ساری تو مجھے واپس لا دے۔ صبح لائبریری میں جمع کروا کے کوئی اور لا دیتی ہوں۔ اچھا یہ بتاو کونسی کتاب اچھی لگی؟ “۔ اماں شاید میرا امتحان لینے کو کتابوں کے نام پوچھتیں۔ میں بھی فوری بتا کر امتحان پاس کر لیتا اور یوں اگلے روز چند نئی کتابیں سکول سے گھر آ جاتیں۔ شاید اس وقت میں ایف ایس سی کے امتحانات دے کر فارغ ہوا تھا۔ اک دن گھر میں کتاب ٹیبل پر دھری نظر آئی۔ انگریزی میں لکھا تھا “مائی داغستان”۔ یہ کتاب داغستان کی مقامی زبان “اوارک” میں لکھی گئی تھی۔جولیس کیزر اس کا انگریزی زبان کا مترجم تھا۔
اماں کا انتقال ہوئے اک دہائی بیت چکی۔ میرے ہاتھ سفر کا پروانہ تھا۔ اک تیسرا گیت ہے جس کی دھن مدھم سی رہا کرتی ہے مگر مسلسل بجتی ہے۔ اس کا ذکر آئندہ ہو گا۔ لاہور میں جون کا ماہ گرمی برسا رہا تھا۔ تب مجھے کیا معلوم تھا کہ مقدر کے مالک نے میرے ہاتھ کی لکیروں میں اک لکیر کاٹ دی ہے۔ داغستان ہنوز دور است۔ ایک روسی کہاوت ہے
“آنکھ کھلتے ہی بستر سے اس طرح اٹھ کر نہ بھاگو جیسے تمہیں کسی بچھو نے ڈنگ مار دیا ہو۔ سب سے پہلے اس خواب کے بارے میں سوچو جو تم نے ابھی دیکھا ہے”
میں خواب دیکھ رہا تھا اور اسی کے بارے سوچ رہا تھا۔ قطر ائیرویز کی ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھی۔ سامان پیک ہو چکا تھا۔ جہاز رن وے پر تیار کھڑا تھا۔ جہاز اڑنے سے پہلے بڑا شور مچاتا ہے۔ پہلے طویل ٹیکسی کرتا رن وے تک پہنچتا ہے۔ انجن فل تھراٹل پر سٹارٹ کرتا ہے۔ گرجتا، دھاڑتا، دوڑتا ہے۔ یہ سب کچھ کر چکنے کے بعد ہی پرواز کے لئے روانہ ہوتا ہے۔ یہ صرف خواب ہیں یا خوابوں کا مسافر ہے جو پہاڑی عقاب کی مانند اپنی چٹان سے اڑ کر سیدھا آسمان کی وسعتوں میں پہنچ جاتا ہے اور بڑے شاہانہ انداز میں منڈلاتا اوپر ہی اوپر اٹھتا جاتا ہے یہاں تک کہ نگاہیں اس کا پیچھا نہیں کر پاتیں۔ اک ایسا ہی سفر آغاز ہونے کو تھا۔ اک سفر تو وہ تھا جو خیالوں و خوابوں میں منصوبے ترتیب دے رہا تھا اور اک سفر وہ تھا جس نے مجھے پیش آنا تھا۔ نشانے نے خود اڑ کر تیر پر لگنا تھا، آشکار کرنا تھا۔ اس تلخ حقیقت کا ذرا سا شائبہ بھی خواب و خیال میں نہیں تھا۔
ابھی تو چناب تھا، کونجیں تھیں، دریائے انگارہ تھا، جھیل بائیکال تھی، حمزہ رسول تھا اور پس منظر میں اماں کا گلاب چہرہ تھا۔ رسول حمزہ کی حسب حال و حسب مضمون اردو میں مترجم شدہ اک نظم ہے۔
تین گیت ہیں
جو اتر جاتے ہیں انسانوں کے دلوں میں
تین گیت ہیں
جن میں بھری ہوتی ہیں
انسان کی خوشیاں اور ملال
اور اک گیت ہے جو بھاری ہے سارے گیتوں پر
اسے گاتی ہے ایک ماں
اپنے بچے کے جھولے کے پاس بیٹھ کر
دوسرا گیت بھی
ایک ماں ہی گاتی ہے
ٹھنڈے برف رخساروں پر
اپنی کانپتی انگلیاں پھیرتے ہوئے
اپنے بچے کی لاش پر
ماتمی دھن میں
اور تیسرا گیت وہ ہے
جسے گاتے پھرتے ہیں
اس دنیا کے سارے گلوکار !

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply