• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان: عالمی طاقتوں کا قبرستان۔۔محمد منیب خان

افغانستان: عالمی طاقتوں کا قبرستان۔۔محمد منیب خان

یوں تو ہم برس ہا برس سے بارہا سنتے آئے ہیں کہ پاکستان تاریخ کے نازک دور  سے گزر رہا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں چند ایک ادوار واقعی ہی ایسے آئے ہیں، جب حقیقتاً پاکستان ایک نازک وقت سے گزرا۔ امریکہ کے افغانستان سے تیز تر ہوتے انخلا کے بعد ایساہی مشکل لمحہ ایک بار پھر پاکستان کے دروازے پہ دستک دے رہا ہے۔  جیسے جیسے امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں ویسے ویسے طالبان کی مختلف شہروں کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔ طالبان کی تیز تر ہوتی پیش قدمی اس بات کی غماز ہے کہ   امریکہ کی آشیر  باد سے قائم اشرف غنی اور عبد اللہ عبد اللہ کی حکومت شاید لمبی مزاحمت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان میں تاریخی طور پہ موجود دوسرے مسلح گروہ بھی اس پیش قدمی کا حصہ بننے  سے رکیں گے نہیں۔ عین ممکن ہے کسی نہ کسی وقت داعش یا آئی ایس آئی جیسی تنظیمیں بھی افغانستان میں سر اٹھا لیں۔

افغانستان کی چالیس سالہ سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے سب گروہ مل کر مشترکہ دشمن سے لڑتے ہیں اور دشمن کے انخلا کےبعد پھر برسوں آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ لہذا بعید نہیں کہ جیسے ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا آخری دستہ بھی افغانستان سےروانہ ہوگا، وہاں پہ تاریخ خود کو دہرائے گی۔ اس وقت بھی جب امریکہ افواج کی زمینی کاروائیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں، طالبان افغا ن  ا فواج سے لڑتے ہوئے اب تک سو سے زائد اضلاع پہ قبضہ کر چکے ہیں اور عین ممکن ہے کہ طالبان کے علاوہ دوسرے مسلح گروہ  بھی اس  قبضہ جنگ میں شامل ہو جائیں گے۔

امریکہ کی افغانستان میں بیس سالہ موجودگی نے جہاں القائدہ اور طالبان کے بہت سے مطلوب لیڈروں کے حوالے سے اپنے بہت سےاہداف حاصل کیے وہاں خطے میں ایک منظم افراتفری کی بنیاد بھی ڈال دی۔ پاکستان نے اس جنگ کو کم و بیش پندرہ سال بھگتا ہے۔اب جبکہ افغانستان کی صورتحال ایک بار پھر خانہ جنگی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ تو سب  سے زیادہ خطرات کے بادل پاکستان کے سر  پہ  منڈلا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اور روس بھی حالات کی ابتری کا اندازہ لگاتے ہوئے مشترکہ کاشوں کے لیے کوشاں ہیں۔ سب سے زیادہ ڈرا دینے والی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی خانہ جنگی کی صورت میں مہاجرین کا ایک ریلا پاکستان کی سرحدوں کی طرف آئے گا۔ پاکستان پہلے ہی کم و بیشک تیس لاکھ افغان مہاجروں کا مستقل ٹھکانہ ہے۔ مزید چند لاکھ کے آنے سے پاکستان  کی ڈولتی معیشت پہ مزید بوجھ پڑے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی مسلح گروہ کے لوگ سرحدی علاقوں میں پناہ گاہیں بنا کر تخریبی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔

یوں تو وزیراعظم پاکستان نے ببانگ دہل کہا ہے کہ ہم امریکہ کو اڈے نہیں دیں گے۔ لیکن پارلیمان کو دی جانے والی بریفنگ کے بعد سےیہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا امریکہ کی طرف سے اڈے مانگے بھی گئے یا نہیں۔ امریکہ کے اڈے مانگنے کی ساری کہانی نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل سے شروع ہوئی جس کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر نے پاکستان کےآرمی چیف سے ملاقات کی۔ جس میں انہوں نے پاکستان سے ڈرون حملوں کے لیے اڈے مانگے۔ جبکہ پارلیمان کے ساتھ قومی سلامتی کی بریفننگ میں باجوہ صاحب نے اڈے مانگنے کا سوال حکومت کی طرف موڑ دیا۔ لیکن اگر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کو درست بھی مان لیا جائے (جس کے غلط ہونے کا امکان بھی ہے)  تو جس طرح نائن الیون کے بعد مشرف کے پاس امریکہ کو انکار کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں تھا ،اب امریکہ کے افغانستان کے انخلا کے بعد پاکستان کو اپنے اڈے امریکہ کو دینے کا کوئی جواز سرے سے موجودنہیں ہے۔

امریکہ بیس سال افغانستان میں رہا، اس قیام کے دوران پاکستان نیٹو سپلائی کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرتا رہا۔ اس کے علاوہ برس ہا برس ڈرون بھی ہماری سرزمین سے اُڑتے رہے اس سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ اگر افغانستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ بیس سال میں ڈھائی لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے تو پاکستان نے بھی اس جنگ میں کم و بیش ستر ہزار لوگوں کو کھویا ہے۔پاکستان کی گلی گلی میں بم دھماکے ہوتے رہے۔ حساس ترین فوجی تنصیبات پہ حملے ہوئے اور سانحہ اے پی ایس تو ان تخریبی کاروائیوں کا نکتہ عروج تھا۔ لہذا امریکہ کے انخلا کے بعد پاکستان کا امریکہ کو افغانستان میں کاروائی کے لیے کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنا خود کشی کے مترادف ہوتا۔ جس سے کہ بہرحال بچا گیا۔ البتہ عمران خان جب کسر نفسی سے گزشتہ ادوار میں ہونےوالے ڈرون حملوں کا ذکر کرتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات کو برابر نہیں سمجھتے تو وہ یہ بات یکسر نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں کہ اگرپاکستان نے امریکہ کی کسی حوالے سے مدد کی تو امریکہ نے بھی کولیشن فنڈ کی  صورت میں پاکستان کو اربوں ڈالر دیے۔ نیزپاکستان کو دی جانے والی خالص فوجی امداد کی بھی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑی ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کو ذلت آمیز شکست ہوئی ہے۔ فتح اور شکست کے معروف پیمانوں پہ پرکھا جائے تو یہ دعوی درست معلوم ہوتا ہے۔ امریکہ بالآخر طالبان کوختم نہیں کر سکا، القاعدہ کی بھی قیادت کسی نہ کسی روپ میں موجود ہے۔ دوسرے مسلح گروہ بھی افغانستان میں موجود ہیں اوراس سب پہ مستزاد امریکہ آشیر آباد سے قائم حکومت کے فوجی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ لہذا معروف معنوں میں امریکہ کو شکست ہو چکی ہے۔ البتہ اگر افغانستان کے روزمرہ حالات کا دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو جنگ کی بدولت افغانستان آج بھی اٹھارہویں صدی کا کوئی ملک معلوم ہوتا ہے۔ جہاں نہ تعلیم کا بہتر نظام موجود ہے اور نہ صحت کا، جس کی تیس لکھ آبادی تین دھائیوں سے مہاجر ہو چکی ہے اور مزید کئی لاکھ کے مہاجر ہونے کا خدشہ ہے۔ جس کے ہاں نہ کوئی مربوط مواصلات کا نظام ہےاور نہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی تحقیق۔ کسی کو گذشتہ چالیس سال میں جنگوں میں مرنے والوں کی صحیح تعداد تک معلوم نہیں۔ آج تک وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے مرد شماری نہیں ہو سکی۔ افغانستان آج بھی جدید دنیا سے کٹا ہوا قبائلی معاشرت کی بود و باش کا ملک ہے۔ بعض مذہبی لوگ بڑی تمکنت سے کہتے ہیں کہ افغانستان عالمی طاقتوں کا قبرستان ہے۔ لیکن افسوس کہ اس قبرستان میں عالمی طاقتوں کا غرور ہی نہیں بلکہ لاکھوں افغانوں کا وجود بھی دفن ہے اور افغانستان کی چالیس سالہ خانہ  جنگی کی تاریخ بھی مدفن ہے۔ اب افغانستان کے مستقبل کو قبرستان بننے سے رکنا ہوگا۔کیونکہ قبرستان کی کوئی تہذیب نہیں ہوتی!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply