غالب- پیش و پس آگاہی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ایک دوست نے اس آزاد نظم کو “مُو کش جراحی”۔۔(“بال توڑ”) کے طنزیہ خطاب سے نوازا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یک الف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
(نسخۂ حمیدیہ سے ماخوذ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یک الف ؟بیش نہیں؟ کیا ہے ‘الف‘ کا مطلب؟
’یک الف ‘ . “ایک ہی اللہ” یا ہےاور بھی کچھ؟
یا فقیروں کے ہے ماتھے پہ الف جیسی لکیر؟
کیا یہ انسان کی پہلی ہے صدا ؟
یا کوئی رمز ہے آئینے کو چمکانے کی؟
جی نہیں، ’صیقلِ آئینہ ‘کا منظر نامہ
اس کو اک اور تناظر میں ہی رکھ دیتا ہے
اور پھر وہ جو نظیریؔ نے کہا ہے، اُسے بھی دیکھیں
“جوہر بینشِ من در تہ ِ زنگار بماند
آں کہ آئینۂ من ساخت نہ پرداخت دریغ”
(ترجمہ اس کا کچھ ایسے ہو گا ۔۔)
قابلِ دید تو تھا جوہرِ بینش میرا
تہہ میں زنگار کی مخفی رہا ، وائے افسوس
جس نے آئینہ بنایا تھا، اسے بھول گیا
اس کو پوری طرح چمکاتا تو کچھ بات بھی تھی
کیا نظیری سے یہ سرقہ ہے؟
۔۔ مجھے کیا معلوم؟
کیسا یہ فعل ہے ، آئینے کو صیقل کرنا؟
جی نہیں، شیشے کا درپن نہیں۔۔فولاد کا ہے۰
(گو کہ غالب نہیں کہتے یہ بات
لوگ کہتے ہیں کہ سکندر نے کیا تھا ایجاد)
اور فولاد کے آئینے کو صیقل کرنا
کتنی ’’گھس پٹ‘‘ ہے میاں، کیسی جگر کاوی ہے
پہلے تو ایک چمک اٹھتی ہے ہلکی سی لکیر
اور پھر بعد میں زنگار گھِسا جاتا ہے
دم بدم، اور رگڑ، اور رگڑ، اور رگڑ!
اب یہ حالت ہے مری، کہتا ہے بے بس شاعر
صیقل ِ آئینہ ہے طرزِ جنوں کی مانند
(دم بدم، اور رگڑ، اور رگڑ، اور رگڑ)
اور یہ طرزِ جنوں خام ہے اب تک میری
یہی تو وجہ ہے اس صیقل ِ آئینہ کو
’’چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا ‘‘
اور کچھ بھی ہیں معانی مخفی؟
ہاں، فقط اتنے ہی معنی سے نہیں بن پڑتا
آئینہ اندھا ہو تو عکس دکھائی ہی نہ دے۔
بال آئینے میں آ جائے اگر۔۔
دیکھنے والے کو دو لخت نظر آئے گا
اور آئینۂ باطن بھی ہے ایسی تمثال
جس سے ہوتی ہے عیاں
راستی ، صاف دِلی، سچّائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 1866ء میں مرز ا غالبؔ نے پیارے لال آشوبؔ کے نام اپنے ایک مکتوب میں اس شعر کی یہ تفسیر پیش کی “پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ آئینہ عبارت فولاد کے آئینہ سے ہے، ورنہ حلبی آئینوں میں جوہر کہاں اور ان کو صیقل کون کرتا ہے؟ فولاد کی جس چیز کو صیقل کرو گے، بے شبہ پہلے ایک لکیر پڑے گی۔ اس کو الف صیقل کہتے ہیں۔ جب یہ مقدمہ معلوم ہو، تو اب اس مفہوم کو سمجھیے
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
یعنی ابتدائے سنِ تمیز سے مشق جنوں ہے۔ اب تک کمال فن نہیں حاصل ہوا ۔ آئینہ تمام صاف نہیں ہو گیا۔بس وہی ایک لکیر صیقل کی جو ہے، سو ہے۔ چاک کی صورت الف کی سی ہوتی ہے اور چاکِ جیب، آثارِ جنوں میں سے ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply