جون ایلیا۔۔۔۔ ثاقب الرحمن

جون اپنی طرح کے ایک ہی انسان گزرے ہیں، وہ بہت ہمہ جہت شخصیت ہیں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کو صرف ایسے جانتی ہے کہ وہ ایک کمزور و نحیف جسم کے مالک، بکھرے بالوں والے شرابی شاعر تھے جو مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے.

جون شاعر تو تھے لیکن صرف شاعر نہیں تھے. وہ ایک فلسفی بھی تھے، نقاد بھی تھے، ادیب بھی تھے، سوانح نگار بھی تھے، مشاہد بھی تھے، مترجم بھی تھے اور ایک ادبی رسالہ” انشا” سے بطور مدیر بھی وابستہ رہے. انہوں نے منطق، مذہب، تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس اور مغربی ادب پر بہت کچھ لکھا۔
اردو، انگریزی، عربی، فارسی سنسکرت اور عبرانی زبان جاننے والے جون ایلیا کے سیاسی نظریات پر کمیونزم کی چھاپ تھی. دینی لحاظ سے انہوں نے دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلیم حاصل کی لیکن اپنے آپ کو کبھی مزہبی پہچان سے نہیں جوڑا. وہ لااَرِدی کیفیات Agnosticism کے حامل تھے. بیباکی میں یہاں تک کہہ گئے ۔۔

“جون اسلامیوں سے بحث نہ کر
تند ہیں یہ ثمود و عاد بہت”

مشہور صحافی رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے جنہیں مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا ۔ اس واقعے کے بعد جون عوامی محفلوں میں محتاط ہو گئے۔

“جون کیفیات کے بادشاہ ہیں “۔ جون جب خود کو کالوجود سے کالعدمی پہ پہنچاتے ہیں تو اس کیفیت میں یہ شعر کہتے ہیں؛

تنہائی کی جان جلاوں یوں ہی ساری رات
خود ہی گھر پہ دستک دوں اور خود ہی پوچھوں کون؟
رومانوی کیفیت میں مجبوریوں اور محبوب کی بے اعتنائی کو یوں بیان کرتے ہیں
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب اک اجنبی بن کر انہیں پہچاننا ہو گا

اور کہتے ہیں

ذکر سن کر میری محبت کا
اتنے بیٹھے تھے، کون شرمایا؟

ایگناسٹ ہونے کے منازل پار کرتے ہوئے ایسے جملے لکھ جاتے ہیں؛

“یقین ہی وہ بیماری ہے جو عقلوں میں فتور اور دلوں میں فساد پیدا کرتی ہے ”

پھر ایسے جملوں پر تنقید کے جواب میں طنز سے بھرپور یہ جملہ کہتے ہیں؛

“اگر میں اپنے جھوٹ کے ساتھ خوش ہوں تو تم مجھ پر اپنا سچ مسلط کرنے والے کون ہوتے ہو!!”

خود شناسی اور لا علمی کی فصیل پہ جھولتے ہوئے لکھتے ہیں؛

شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں

اپنے کمرے کو “خون تھوکنے کا کارخانہ” کہتے ہیں اور اس کیفیت بارے لکھتے ہیں؛

اپنے اندر ہنستا ہوں میں اور بہت شرماتا ہوں
خون بھی تھوکا، سچ مچ تھوکا، اور یہ سب چالاکی تھی

فنا فی المحبوب اور دیدار یار کی کیفیات کی آمیزش سے کچھ ایسے اشعار تخلیق کرتے ہیں؛

ان کو دیکھا کہ گفتگو کر لی
ایک شے ہے تجلی و آواز

مرد و زن کی معاشرتی نفسیات کے المیوں کا بیان منٹو کی طرح جون ایلیا بھی کرتے نظر آتے ہیں، فرماتے ہیں؛

جان من تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں

آگہی کے عذاب کو سب سے بڑی نعمت سمجھتے ہیں اور یہ عظیم بات کہہ دیتے ہیں؛

“تاریخ کے حساس انسانوں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ اداس رہ کر گزارا ہے، زندگی میں خوش رہنے کے لئے بہت زیادہ ہمت نہیں، بلکہ بہت زیادہ بےحسی چاہیے ”

ان کے انشائیوں اور مضامین کا مجموعہ” فرنود” بلاشبہ ایک شہکار ہے. یہ کتاب عقل کو جھنجھوڑتی ہے. سوال کر کر کے سوال پر ابھارتی ہے. یہاں عقل اور منطق کے میزان پر مشاہدات کے قیدی تولے جاتے ہیں. فلسفے کی زنجیر سے خیالات کو ہانکا جاتا ہے.

جون ایلیا نے زندگی کے آخری برسوں میں ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو دیکھا، بیٹے نے انہیں دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر دیا، اس ایک غلط انداز نظر نے جون سے اردو کی ایک طویل اور شہکار نظم “درختِ زرد” تخلیق کروا دی، کہا جاتا ہے کہ نظم سناتے وقت جون روتے رہے تھے۔ اس نظم کے کچھ اشعار یوں ہیں؛

تو میں کیا کہہ رہا تھا یعنی کیا کچھ سہہ رہا تھا میں
اماں ،ہاں میز پر یا میز پر سے بہہ رہا تھا میں
رکو، میں بے سروپا اپنے سر سے بھاگ نکلاہوں
مرا میں لاگ میں تھا اس سے میں بےلاگ نکلا ہوں
ردیف و قافیہ کیا ہیں شکست ناروا کیا ہے
شکست ناروا نے مجھے پارا پارا کر ڈالا
انا کو مری بے اندازہ تر بے چارہ کر ڈالا
میں اپنے آپ میں ہارا ہوں اور خوارانہ ہارا ہوں
جگر چاکانہ ہارا ہوں دل افگارانہ ہارا ہوں
جسے فن کہتے آئے ہیں وہ ہے خون جگر اپنا
مگر خون جگر کیا ہے وہ ہے قتال تر اپنا
وجود اک جبر ہے میرا، عدم اوقات ہے میری
جو میری ذات ہرگز بھی نہیں، وہ ذات ہے میری
میں روز و شبِ نگارش کوش خود اپنے عدم کا ہوں
میں اپنا آدمی ہرگز نہیں، لوح و قلم کا ہوں

جون کی شخصیت بہت ہمہ گیر ہے جتنا میں لکھ سکا ہوں جون پر اس سے کئی زیادہ لکھا جا سکتا ہے اور لکھا گیا ہے۔ جناب جون کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کے بعد علامہ صاحب کا یہ شعر یاد آتا ہے؛

عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں

Advertisements
julia rana solicitors

(حیات کئی صدیوں تک معبد میں نالہ و فریاد کرتی ہے، تب کہیں جا کر ایک دانائے راز پیدا ہوتا ہے)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply