چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط25

اَستور ناشتہ:
اَستوربازار پہنچ کر جس ہوٹل میں کھانا کھایا تھا اُسی میں ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھے۔ہوٹل کا کُچھ عملہ اَبھی بیدار ہوا تھا۔دوستوں نے تگڑے ناشتے کاحکم نامہ جاری کیا۔انڈے بَہت سے پراٹھے اور چائے۔میری گرانی ابھی ختم نہ ہوئی تھی نہ اِس نے اَبھی ختم ہوناتھا۔میں باہر آیا تاکہ کِسی بیکری سے دہی   لے سکوں۔ایک بوسیدہ بیکری کے فریج میں دہی کے ڈِبے پر مکھیاں مری پڑیں تھیں۔دُکاندار سے پُوچھا یہ کب کاہے ؟ جواب دِیا ڈیٹ لیکاہے دیکھ لو(ڈیٹ لکھی ہے دیکھ لو)۔تاریخ دیکھنے کی ضرورت نہ تھی۔مُر دہ مکھیوں نے سمجھا دِیا تھا کہ ہماری اَور دہی کی زندگی ختم ہو چکی ہے۔

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط24
باہر نِکلا تو سکول جانے والے بچوں کو دیکھ کر، جودِل دہی کے ڈِبے کو دیکھنے سے متلا گیا تھا۔ایک دَم کھِل اُٹھا۔اَستور میں دیواروں پہ جا بجا جَلی حرُوف میں یہ عبارت دیکھی تھی ”میرا سکول میرا گھر“۔محمد اَشرف اَستور ہائی سکول کا بچہ اُجلا لِباس نیلی قمیض (شرٹ) اَور ملیشیا ء کی پیتلون میں ملبوس تھا۔بازار میں سکول جانے والے بچے صاف سُتھرے لِباسوں میں مکتب جارہے تھے۔محمد اَشرف پُر اعتماد بچہ تھا۔میرے ہر سوال کا جواب اُس نے دِیا۔اُسے اَپنے تما م اَساتذہ اَچھے لگتے تھے۔سب محنت کرنے والے تھے۔اُس کے سکول میں تین سو کے قریب طالبِ علم زیر تعلیم تھے۔ ایک اَور بچہ آرمی پبلک سکول کامِلا جِس نے بتایا کہ اُس کے مکتب میں پانچ سو کے قریب تعداد ہے۔اَستور کے بارے میں ایک مغربی مصنف نے تقریباً127 سال قبل لِکھا تھا کہ اِس شہر میں صفائی کا فُقدان ہے۔یہ شکایت آج بھی ہے مگر تعلیم کی طرف رُحجان اِن دُور دراز وادیوں میں اِنتہائی خُوش کن بات ہے۔اَگرچہ غیر سرکاری تعلیمی اَداروں میں تعداد سرکاری اَداروں کے مقابلے میں یہاں بھی زیادہ ہے۔یہ رُحجان ترقی پذیر ممالِک میں ہر جگہ موجود ہے۔حکومتیں قرضوں تلے دبی سِسک رہی ہیں۔عوام آپس میں اِنتشار کا شکار ہیں بے روزگاری کی شرح دن بدن بڑ ھ رہی ہے۔تعلیم اَور صحت جیسا شعبہ کاروبار کی شکل اَختیار کر گیاہے۔
میں نے سبزی فروشوں سے کیلے تلاش کیے مگر اَبھی نہیں پہنچ سکے تھے۔اَور کل کے کل ہی فروخت ہو گئے تھے۔ یہاں خُشک پھل وافر تھا مگرمُجھے نہیں خریدنا تھا۔گاڑی میں اِتنا تھا کہ سفر میں بوقت ضرورت کام آسکے۔ ہوٹل واپس آیا تو میز پراٹھوں اَور اَنڈوں سے پُر تھی۔تمام دوست اِن پہ اَیسے ٹوٹ پڑے تھے جیسے اِس نعمت کے لیے بَس آج آخری دن ہو۔دوست ناشتے سے سیر ہو چکے تو چلنے کی تیاری ہوئی۔

وادی ِچِلَم:
اَستور سے نکل کر ہم ترشنگ کو دائیں ہاتھ چھوڑتے ہوئے گوری کوٹ کی طرف بڑھے۔گوری کوٹ اَستور سے 6 کلومیٹر ہے۔گوری کوٹ کے چھوٹے سے بازار کی اِک گلی میں ہمیں کشمیر بیکرز کا کتبہ لگا نظر آیا تو گاڑیاں روک دیں۔دُکان کے اَندر داخل ہوئے توجانے پہچانے چہرے،باغ کے گاریگراَور بیکری میں تازہ تازہ سامان کی مہک ہمارے نتھنوں سے ٹکرائی ۔ہم نے جُوس،ٹافیاں،بند اَور چندمزیداَشیا خریدیں۔اِن کاریگروں کا سامان گوری کوٹ کے قصبو ں میں خُوب بِکتا ہے۔گوری کوٹ سے چِلم چوکی تک 48 سے46کلومیٹر کاسفرہے۔تنگ پہاڑی سڑک پہ دھیمے دھیمے چِلم چوکی تک مسلسل چڑھائی ہے۔ہاں بعض جگہ گھوم پھراؤ میں یہ چڑھائی زیادہ نہیں لگتی۔گوری کوٹ اَور چِلم چوکی کے درمیان کدائی اَور دَس خرام دو پڑاؤ آتے ہیں۔اِن کے بیچ خُوبصُورَت وادیاں ہیں۔یہ سارا علاقہ سر سبز اَور خُوبصُورَت ہے۔مگراَصل لُطف وادی چِلم اَور اُس سے اُوپر کامنظرہے۔

اِک یخ پانی کی ندی جِس میں قدم قدم پہ چشمے اَپنا پانی بھر بھرکے اُنڈیلتے ہیں،ایک چھوٹے سے میدان کے بیچوں بیچ بہتی ہے۔اَطراف میں تراشیدہ پہاڑوں کا حُسن،اِس کے درمیاں حسین سبزہ زار،اِن میں ریوڑوں کے ریوڑ کاندھے سے کاندھا مِلا کر اَپنے اَپنے حصے کا گھاس چرنے میں مصرُوف۔اِن کی نِگرانی کرنے والے اِکادُکا بچے جواِن ہی کے اِردگِرد گھاس کے میدان میں کھیل کُود میں مصرُوف تھے۔شام پڑتے ہی یہ اِن چراگاہوں سے گھروں کو لوٹیں گے۔مویشی رَسیلی گھاس کھانے کے بعد رَسیلااَورمیٹھا دُودھ اُتاریں گے۔خالص فضا،خالص دُودھ اَور خلوص میں گوندھی محبت کی میٹھاس اَور نفرتوں کی کھٹاس۔صُبح کے اُجالے،شام کے دُھندلکے،نُور کے تڑ کے کے ساتھ جاگنا اَور شام ڈھلتے ہی کھا پی کرسو جانا۔یہاں اَیسی ہی صبحوں اَور شاموں کے درمیان زندگی رواں دواں ہے۔

صُبح خُورشید اِن سزہ زاروں، گُنگناتی نَدیوں،گھنے جنگلوں میں بَسی دُنیا کی نقاب کُشا ئی کرتاہے تو خُوبصُورت برفاب وَادیوں کے دَامن میں سُریلے پَنچھیو ں اَور بہتے چشموں کاترنَم ہوتاہے۔خُنک ہوائیں گرم دُھوپ میں تازگی بخشتی ہیں۔ پھرچراگاہوں کی دُنیا چوپایوں سے آباد ہو جاتی ہے۔دِن کو سورج اِن چراگاہوں پہ چمکتا رہتا ہے۔دُھوپ اَور شبنم کے تال میل سے ضیائی تالیف کاعمل تیز ہو کر سبزے میں زندگی دوڑا لیتا ہے۔ آخر ڈَھلتا سُورَ ج تھک کر کِسی پہاڑ کی نوک پر ٹھہر ساجاتا ہے۔ بڑے سُرخ تھال کے گِرداگِرد بادلوں کی کائنات گاڑھی لال ہوجاتی ہے۔جیسے سمندر میں،سُرخ گول توَا ڈُو ب رہا ہو،مغربی اُفق پہ شامیں سُر خ ہوجاتی ہیں۔ شام کے گہرے ہوتے سائے میں پرندے اَپنے آشیانوں کو آجاتے ہیں تو چراگاہوں کی مَست گھاس میں لُوٹیں لگانے والے اَپنے کچے ڈھاروں کی طرف رُخ کرتے ہیں۔رات سارے ماحول کو اَپنی سیاہ چادر پہنا لیتی ہے تو نیند یہاں کے ہر باسی کو لوریاں دینے لگتی ہے۔کسِی اَیسے ہی دیہات کو اَحسان دَانش نے نظربھر کے دیکھا ہے۔
سُرخ مے برسارہا تھا شام کارنگین شباب
جھک رہا تھادُور کھیتوں کے کنارے آفتاب
سرنگوں تھیں ٹہنیاں،شرما رہے تھے سبزہ زار
آرہی تھیں نیند کی پریاں ہواؤں پہ سوار
دامن ِشب میں چھُپی جاتی تھی فطرت کی اُمنگ
چھیڑ رہی تھی آبشاروں میں سہانی جلترنگ
بندکیں ذروں نے آنکھیں اَور لہریں رُک گئیں
رفتہ رفتہ شام کی دیوی کی آنکھیں جُھک گئیں

Advertisements
julia rana solicitors

چلم چوکی پہنچ کر تھوڑی دیر کو ہم رُکے،پھرآگے جانے کی اِجازَت مل گئی۔ہمارے راستے میں اَب درّہ بُرزَل تھا۔یہ درہ وادی کشمیر اَور اَستور کو مِلاتاہے۔اگرآسان زبان میں کہیں تو درّہ بُرزَل کے ایک طرف وادی کشمیر ہے تو ایک طرف گلگِت بَلتِستان (اَستور)۔ریاست کشمیرمیں 34درے ہیں۔قراقرم اِن سب میں سے بلند ہے۔اِس کی بلندی 18290فُٹ ہے۔قراقرم لداخ کو چین کے صوبہ سنکیانگ سے مِلاتا ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط25

Leave a Reply