سینٹ پیٹرز برگ میں ایک شام۔۔سیّد مہدی بخاری

ولادیمیر پوٹن برحق ہیں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ عورتیں اگر پردہ نہیں کریں گی تو مردوں پر اثر تو پڑے گا ناں۔ میں موجود ہوں فحاشی، عریانی و کھلی بے حیائی کے ہیڈ کواٹر روس میں۔ آج یہاں مجھے پورے دو ہفتے ہو چلے ہیں۔ چپے چپے پر بے پردگی پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ سرعام گلچھڑے اڑاتے اور رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ لباس کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ بعضی بعضی تو برائے تحفظ مچھراں جالی سی ہی پہنتی ہیں جس کے آر پار شفاف دکھتا ہے۔ گزشتہ رات تو مجھے دمیتری مل گیا۔

ٹرائی پوڈ پر کیمرہ لگائے۔ ایک کینال کے پل کے اوپر کھڑے   تصاویر لے رہا تھا۔ ایک شخص آیا اور کہنے لگا ” تم کہاں سے ہو ؟ “۔ میں نے اسے بتایا کہ میں مملکت خداداد پاکستان سے ہوں۔ فوری بولا ” او ۔۔۔ طالبان سٹیٹ”۔ یہ سن کر مجھے عجب لگا تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا ” برادر ! آپ کا جغرافیہ کمزور ہے۔ طالبان سٹیٹ افغانستان ہے۔ پاکستان نے تو طالبان سے جنگ لڑی ہے اور اب امن امان ہے”۔ اس نے جواب سن کر شرمندہ سا ہوتے ہوئے  معذرت کی اور ہاتھ ملانے کو آگے کر دیا۔
“میں ایک فوٹوگرافر ہوں۔ تم کو کام میں مشغول دیکھا تو رہ نہ پایا۔ سوچا بات چیت کی جائے۔ باقی تم کو میری بات بری لگی تو میں انتہائی معذرت کرتا ہوں۔”
“اچھا! میں بس آپ کا جغرافیہ ٹھیک کروا رہا تھا۔ ”
“تم یہاں پہلے آ چکے ہو ؟ سینٹ پیٹرزبرگ میں ؟ ”
“نہیں۔ میں پہلی بار روس آیا ہوں”
“لگتا نہیں۔ مجھے لگا تم پہلے سے اس جگہ کو جانتے ہو۔ تم جس جگہ سے تصویر لے رہے ہو وہ سامنے کیتھیڈرل سیوئیر آن سپلڈ بلڈ ہے۔ اس اینگل سے کم لوگ ہی تصویر لیتے ہیں۔ وہی جو جگہ کو جانتے ہیں یا پھر تم ایک تجربہ کار فوٹوگرافر ہو”
“ہاں ۔۔۔ تجربہ کار کہہ سکتے ہو۔ ”

بات چیت فوٹوگرافی سے شروع ہوئی اور پھر بڑھتی گئی۔ دمیتری نے مجھے اپنا کام دکھایا جو بلاشبہ بہترین کام تھا۔ وہ ایک عمدہ فوٹوگرافر تھا۔ ہم دونوں ایک کافی شاپ کے باہر بیٹھ گئے۔ گفتگو ایک گھنٹہ جاری رہی۔ وہ مجھے اپنے بارے اپنے رسم و رواج کے بارے بتاتا رہا۔ پھر بولا ” تمہارے ملنے سے مجھے یقین ہو گیا کہ پاکستان انتہاپسندوں کا ملک نہیں”
“تم کو یہ یقین کیسے ہو گیا ؟ ”
“کم سے کم تم انتہاپسند نہیں۔ تمہارے ہاتھ میں کیمرہ  ہے اور باتوں سے اپنے ملک سے محبت ظاہر ہوتی ہے”
“اچھا ! شکریہ تمہارا دمیتری”

ایک لڑکی آئی۔ اس نے دمیتری کو گلے لگایا۔ دمیتری نے تعارف کرواتے بتایا کہ یہ ایکترینا ہے۔ میری بہن ہے۔ ایکترینا ہماری گفتگو میں شامل ہو گئی۔ گفتگو کا رخ شہر کی زندگی کی جانب مڑ گیا۔ دونوں نے مجھے کہا کہ آج ویک اینڈ ہے۔ چلو تم کو بار میں لے چلتے ہیں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ مجھے فوٹوگرافی کرنی ہے۔ پھر وقت نکل جائے گا۔ سورج چڑھ آئے گا۔ دمیتری میری بات کو سمجھ گیا۔ بولا ” او ہاں۔۔۔ ہم نے تمہارا بہت وقت لے لیا۔ میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری بات۔ یہی وقت ہے فوٹوگرافی کا۔ تم جاؤ  اور ہم رابطے میں رہیں گے۔”

ٹیلی فون نمبروں کا تبادلہ ہوا۔ وقت رخصت دمیتری نے کہا سیلفی تو لے لو تا کہ یادگار رہے۔ میں نے اسے جواب دیا کہ یار آج تک مجھے سیلفی لینی نہ آئی باقی کیمرا چلانا بہتر آتا ہے۔ ایکترینا اٹھی اور وقت رخصت اس نے اپنے رسم و رواج کے مطابق بنا اجازت گلے لگا کر میرے دونوں گال چوم لئے۔ اب میں کیا کہتا۔ یہ ان کا دوستوں سے ملنے اور جدا ہونے کا طریقہ ہے۔ ملاقات اختتام کو پہنچی۔

پوٹن ٹھیک نہیں کہتا۔ معاشرے اپنی تربیت پر قائم ہوتے ہیں۔ افراد اپنے ذہنی شعور سے ترقی کرتے ہیں۔ جہاں میں ہوں وہاں سب کچھ ہے مگر مجال ہے کسی کی، جو کوئی کسی کو انگلی سے ٹچ بھی کر جائے یا راہ چلتے کسی کو بیہودہ جملہ کہہ دے۔ یہاں قانون سے زیادہ انسانیت کا احترام ہے۔ یہاں ذہنوں کی تربیت ایسی ہے کہ کسی خاتون کو نامناسب بات کہنے کا تصور بھی نہیں۔ باقی قانون کے ہاتھ آہنی بھی ہیں اور سخت بھی ہیں۔ ہمارا مسلم معاشرہ اتنا کمزور کیسے ہوا کہ عورت کو صرف برقعے میں محفوظ سمجھنے لگا ؟۔۔ عورت نہ برقعے میں محفوظ ہے ،نہ بے پردہ لباس میں۔ عورت محفوظ ہے معاشرے کی اصلاح سے۔ ذہن سازی و تربیت قوموں کی ہوا کرتی ہے ہجوم کی نہیں۔ چھوڑیئے عورت کو۔ بتایئے کیا مرد محفوظ ہیں ؟ کیا بچے محفوظ ہیں ؟ کیا مردوں و بچوں کو بھی پردے کی ضرورت ہے ؟ ہمارے ہاں کونسی تربیت اور کیسی ذہن سازی ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر، اثر کس نے لینا ہے۔ سب لکھا، پڑھا، کہا اور سنا بیکار ہے یہاں۔ شعر یاد آ گیا ۔ حسب حال بھی ہے حسب مضمون بھی ہے۔
دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم تو پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply