نظم “مرشد” کا نفسیاتی تجزیہ۔۔سیدہ فبھا فاطمہ

انسان جس جگہ پر رہتا ہے اس کا ماحول اس میں مکمل طور پر سرائیت اختیار کر جاتا ہے۔ انسانی زندگی پر بہت سے عناصر اثر انداز ہوتے ہیں ،ان میں ماحول ایک اہم عنصر ہے۔

ماحولیاتی نفسیات کا مطالعہ کرنے سے بھی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماحول انسان کی زندگی کا ایک اہم جزو ہے۔

Environmental Psychology studies the interactions and relations between people and their environment.

نظم مرشد جس کے تخلیق کار افکار علوی ہیں اس کا نفسیاتی تجزیہ کروں تو ،اس نظم کے ہر شعر میں شاعر کی شعوری کیفیات کے ساتھ ساتھ بچپن کی محرومیاں یا وہ بے بسی جو شاعر کو دوسروں میں نظر آئی،اس نظم میں جھلک رہی ہے ۔

اس نظم میں بیان کی گئی صورتحال مشاہدے اور تصور کے گرد ایک خوبصورت قوس ِ قزاح بناتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں عشقِ حقیقی تک کا سفر کیا اور خدا سے اس طرح سے گویا ہوئے جیسے انسان کسی کے ساتھ مان سے بات کرتا ہے ۔

اس نظم میں بیک وقت آہ اور واہ کی کیفیات قاری کو جکڑے ہوئے ہیں۔ اس نظم کی گہرائی قاری کو شاعر کی کیفیات سے براہ راست جوڑتی ہے ۔ یہ نظم اپنے اندر شکوؤں کی دنیا آباد کیے ہوئے ہے ۔ اور انسان نفسیاتی طور پر شکوہ تب ہی کرتا ہے جب وہ بے بس ہوتا ہے ۔

اگر اس نظم کو فرائیڈ کے نظریہ کے تناظر میں پرکھا جائے تو بچپن زندگی کا ایک ایسا حصہ ہوتا ہے جو انسانی شخصیت کی بنیاد میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔اور شاعر نے جس طرح سے اور جس ماحول میں اپنا بچپن گزارا اور مسلسل آنے والی نسلوں کا بچپن اسی ماحول میں وہ دیکھ رہے ہیں ،شاعر نے اس کی ایک تصویر اس نظم میں بیان کی ۔

اس نظم کی مقبولیت میں جو کلیدی کردار ہے وہ مشترکہ محرومیوں کا ہے ۔کیونکہ کچھ ایسی محرومیاں ہوتی ہیں جن سے زیادہ تر لوگ گزر رہے ہوتے ہیں اور وہ مشترکہ محرومیاں بن جاتی ہے اور جب بات مشترکہ محرومیوں کی ہوتی ہے تو اس سے وابستہ ہر انسان اس بات کو اپنی ہی بات سمجھتا ہے اور اس میں ایک احساس (emotions )پیدا ہو جاتا ہے .

شاعر نے اس نظم میں اس طرح نفسیاتی پہلو بیان کئے کہ یہ لوگوں کے دلوں میں اتر گئی۔نظم میں بچوں کی نفسیات کو بہت اچھے طریقے سے بیان کیا گیا ۔ یعنی بچے اپنے بڑوں کو جیسا کرتے دیکھتے ہیں ان کی تقلید کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اور شاعر نے اس کو بیان کرنے کے لیے سرائیکی زبان کا سہارا لیا ۔نظم میں ایک کردار جو کہ “مرشد” کے نام سے ہے اس کو ذریعہ بناتے ہوئے اپنے شکوے بیان کیے۔

جب ہم ایک چیز کو مسلسل دُہرا رہے ہوتے ہیں ،تو وہ ہمارے ذہن میں رہ جاتی ہے ۔ Cognitive Theory میں بھی چیزوں کو recall کرنے سے learning process بہتر ہوتا ہے ۔ اس میں شاعر نے لفظ مرشد کو recall کر کے لوگوں کے ذہنوں میں نفسیاتی طور پر سمو دیا ہے،اور ساتھ ہی modeling technique کا استعمال کرتے ہوئے مرشد کردار کو ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے

لیکن اس نظم کے آخر میں انہوں نے اس ماڈل میں یعنی کے مرشد کا پول کھولا اور اس کے کردار کی بے بسی کو بیان کیا کہ حقیقت میں اس کردار کی بھی نہیں چلتی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نظم میں ماضی حال مستقبل کی منظر کشی کے بعد  استعارہ کے طور پر “کُن ” لفظ استعمال کیا۔ اور اپنے پروردگار سے التجا کی ۔اور یہی اصل زندگی ہے جب انسان کا خدا سے ایک گہرا تعلق بن جاتا ہے وہ خود سے خدا تک کا سفر کرلیتا ہے تو اسے ذہنی جسمانی روحانی نفسیاتی سکون میسر ہوتا ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply