دیوجانس کی شخصیت اور فلسفہ۔۔۔۔ ابو بکر

تیسری صدی قبل مسیح کے کلبی فلسفی اور طنزنگار منی پس نے دیوجانس کلبی کے قزاقوں کے ہاتھوں پکڑے جانے اور غلام بنا کر جزیرہ کریٹ میں بیچے جانے کی کہانی پر ایک کتاب لکھی۔ کتاب کا نام ‘ دیو جانس کی فروخت’ ہے۔ اگرچہ کہانی کی تاریخی حیثیت مشکوک ہے لیکن اس کے ذریعے دیوجانس کی شخصیت اور فلسفہ کو نہایت دلچسپ انداز میں واضح کیا گیا ہے۔
کہانی کے آغاز میں دیو جانس کلبی ایجنا جزیرے کی طرف محو سفر ہوتا ہے۔ اس دوران بدنام زمانہ قزاق سکرپالوس اور اس کے ساتھی دیوجانس کو پکڑ لیتے ہیں اور غلام بنا کر اپنے جہاز پر قید کر لیتے ہیں۔ وہاں کئی اور افراد بھی قید ہوتے ہیں جن پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے اور زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا ہے۔ قیدیوں کو بھوکا رکھا جاتا اور صرف اتنا کھانا دیا جاتا کہ وہ بھوک سے مر نہ جائیں۔تمام قیدی سخت خوفزدہ تھے اور اکثر روتے رہتے۔ دیوجانس کو ظاہری طور پر ان حالات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ وہ پہلے کی طرح اپنے آپ میں گم پڑا رہتا۔ بھوک، تشدد اور زنجیروں کی جکڑ نے بھی اس کے احساسات پر کوئی فرق نہ ڈالا تھا۔ دیوجانس کا فلسفہ بھی یہی کہتا تھا کہ آدمی پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر اس کے اپنے ہاتھ سے۔انسان دنیاوی شرائط سے آزاد رہ کر اپنی ذات میں ہی اطمینان پا لے تو حالات جیسے بھی ہوجائیں کوئی اس کا سکون نہیں چھین سکتا۔ باقی قیدی اور خودقزاق بھی دیوجانس کے رویہ سے حیران تھے۔ ایک قزاق نے اس سے کوئی بات کی تو دیوجانس نے اس سے سوال کیا کہ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر کوئی شخص بھیڑ یا سور بیچنا چاہتا ہو تو وہ انہیں خوب کھلاتا پلاتا ہے تاکہ ان کا وزن بڑھ جائے۔اور تم جو جانوروں میں سب اعلیٰ یعنی انسان بیچتے ہو انہیں بھوکا رہتے ہو تاکہ وہ ڈھانچہ بن جائیں اور کسی کام کے نہ رہیں۔کہانی مزید بتاتی ہے کہ یہ سننے کے بعد قزاقوں نے تمام قیدیوں کو مناسب کھانا دینا شروع کردیا۔
جزیرہ کریٹ پہنچتے ہی قیدیوں کو غلاموں کی منڈی میں نیلامی کے لیے لگا دیا گیا۔نیلامی شروع ہونے سے پہلے دیوجانس زمین پر بیٹھ گیا اور روٹی کا ایک ٹکڑا چبانے لگا۔ ساتھ ایک اور غلام بھی بیٹھا تھا جو اپنی بدقسمتی پر مسلسل رو رہا تھا۔ دیوجانس نے اسے تسلی دی کہ اور کہا کہ مت گھبراؤ۔ جیسے بھی حالات ہوں سامنا کرتے جاؤ۔
نیلامی اس طرح شروع ہوتی تھی کہ سب سے پہلے غلاموں سے باآواز بلند ان کا وطن پوچھا جاتا تھا کہ وہ کہاں سے ہیں۔ جب دیوجانس سے اس کا وطن پوچھا گیا تو اس نے کہا وہ زمین کا شہری ہے اور پوری زمین اس کا وطن ہے۔ ‘کاسموپولیٹن’ کی معیاری تعریف یہیں سے اخذ کی جاتی ہے۔

جب تمام قیدیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ زمین پر بیٹھ جائیں تو دیوجانس اپنے مخصوص انداز میں مچھلی کی طرح لیٹ گیا اور باتوں ہی باتوں میں نیلامی کے منتظم کا مذاق اڑانے لگا کہ جیسے وہ انسان نہیں بلکہ مچھلیاں بیچنے والا ہو۔دیوجانس نے اس کہا کہ مچھلی چاہے جس طرح بھی رکھی جائے گاہک مل ہی جاتا ہے۔
گاہکوں کی ایک کثیر تعداد منڈی میں موجود ہے۔ اچانک دیو جانس کھڑا ہوتا ہے اور اس مجمع سے خطاب شروع کرتا ہے۔ وہ ان سے کہتا ہے کہ جب تم لوگ کوئی برتن یا مچھلی خریدنے لگتے ہو تو تسلی کرتے ہو کہ اس کا معیار ٹھیک ہے۔لیکن آدمی خریدنے سے پہلے تم اس کا کردار اور خصوصیات نہیں دیکھتے بلکہ ظاہری معائنے کو ہی کافی سمجھتے ہو۔اس پر نیلامی کا منتظم اس سے پوچھتا ہے کہ تمہاری خصوصیت کیا ہے۔ دیوجانس جواب دیتا ہے ‘ آدمی پر حکومت کرنا’۔ آواز لگاؤ کہ کوئی ہے جو اپنے لیے آقا خریدنا چاہتا ہو۔اس پر مجمع میں قہقہہ بلند ہوتا ہے۔

پھر دیوجانس خود ہی مجمع میں ایک شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اپنی وضع قطع سے مالدار معلوم ہوتا تھا۔اس کا نام زینی ایڈس تھا۔ دیوجانس کہتا ہے کہ مجھے اس شخص کو بیچ دو۔ لگتا ہے یہ کسی آقا کو سنبھال سکتا ہے۔زینی ایڈس جو غلام خریدنے کے لیے ہی وہاں موجود تھا دیوجانس کو خرید لیتاہے۔ کہانی میں نہایت خوبصورتی سے دکھایا جاتا ہے کہ کیسے دیوجانس نے اپنی مہارت سے نیلامی کا سارا منظر نامہ اس طرح تبدیل کیا کہ جیسے وہ وہاں غلام بن کر بکنے کی بجائے خود کسی کو خریدنے آیا ہو۔

زینی ایڈس دیوجانس کو لیکر کارنتھ اپنے گھر آجاتا ہے۔ دیوجانس اس سے کہتا ہے کہ اگر کوئی طبیب غلام بھی ہو تب بھی طب پر اس کی رائے اپنے مالک سے زیادہ مستند ہوگی۔ لہذا زینی ایڈس پر لازم ہے کہ وہ دیوجانس کی رائے کو اہمیت دے کیونکہ عقلمند شخص غلام ہونے کے باوجود بھی اس کا مستحق ہے۔ دیوجانس کو ذمہ داری دی جاتی ہے کہ وہ ناصرف گھر کا سارا کام کرے گا بلکہ زینی ایڈس کے دو بیٹوں کی تعلیم و تربیت کا خیال بھی رکھے گا۔ دیوجانس دونوں لڑکوں کو اپنی نگرانی میں لے لیتا ہے۔ وہ انہیں ورزش کرنا سکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ انہیں کیسا لباس پہننا چائیے اور کس طرح کی غذا کھانی چائیے۔ یہ لڑکے دیوجانس سے اتھلیٹک کی تربیت لیتے ہیں اور تیر اندازی اور گھڑ سواری بھی سیکھتے ہیں۔ دیوجانس انہیں سادہ زندگی گزارنے کے اصول بتاتا ہے اور سختیوں کو برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ انہیں اپنے ساتھ شکار پر بھی لے جاتا ہے۔ وہ انہیں کئی شاعروں کا کلام اور مورخین کے تذکرے پڑھاتا ہے۔ ان لڑکوں کو دیوجانس سمیت کئی اور فلسفیوں کی تحریریں ازبر تھیں۔ کہاجاتا ہے کہ یہ دونوں لڑکے دیوجانس سے بیحد محبت کرتے تھے اور اس کے زیراثر ننگے پاؤں چلنا شروع ہوگئے تھے۔ دیوجانس نے گھر کی مکمل ذمہ داری اس طرح اٹھا لی تھی کہ زینی ایڈس اکثر کہتا کہ اس کے گھر کوئی خدا نگرانی کے لیے آگیا ہے۔ اس دوران دیوجانس کے عزیزوں کے اس کے غلام بننے کا علم ہوا تو وہ اسے ملنے آتے۔ اس کے متعدد دوست تاوان بھرنے کی ضد کرتے تاکہ وہ آزاد ہوجائے لیکن دیوجانس کبھی بھی اس پر راضی نہ ہوتا۔ زینی ایڈس کا قول تھا کہ دیوجانس گھر کا مالک ہے جبکہ ہم غلام ہیں جو اس کی ہدایات پر چلتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہتے ہیں کہ دیوجانس نے زینی ایڈس کے مکان پر ہی باقی عمر گزار دی اور وہیں اس کا انتقال ہوا۔ بعد ازاں زینی ایڈس اور اس کے لڑکوں نے اپنے ہاتھوں سے اسے دفن کیا۔ زینی ایڈس نے اس سے پوچھا کہ اسے کس طرح دفنایا جائے۔ اس پر دیوجانس جواب دیتا ہے کہ ‘ سر کے بل’۔ جب اس سے وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا؛
کچھ وقت گزرتے ہی نیچے کی چیزیں اوپر آجاتی ہیں۔
( وقت گزرتے ہی ہر پامال اوج پر آجاتا ہے۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply