ٹاپ لیس قلم اور کٹے پھٹے گریباں ۔۔۔۔مشتاق خان

مولا جٹ کا اوئے ایس ایچ او ۔۔اوئے جاگیردارا کہنا یا ڈراموں فلموں کہانیوں کالموں میں پولیس کو وڈیروں جاگیر داروں کو للکارتا ہوا  قلمکار، اداکار ہر غریب نیک دل پڑھے لکھے نوجوان کو اپنے سحر میں مبتلا کرلیتا ہے ۔
میرے لئے گریبان کے بٹن کھولے آستینوں کو اوپر چڑھائے ،سگار انگلیوں میں تھامے ،پولیس ،سیاستدانوں،بیوروکریسی معاشرے کے ظالم طبقے کو للکارتے دو تین حضرات ہیرو تھے۔ جب یہ لوگ بولتے یا ان کی تحریر پڑھتے تو تصور میں ظالم پولیس والوں ،جاگیر داروں کے کٹے پھٹے گریبان آتے اور دل میں خوشی کی لہریں چلتی ۔

یہ لوگ اپنی تحریر و تقریر میں بہت بیباکی اور بہادری کے ساتھ ان ظالم طبقوں کے خلاف لکھتے اور بولتے، ان کے گریبانوں کو چاک کرتے نظرآتے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ  عمران خان بھی شاید انہی کی تحریروں سے متاثر ہو کر ان طبقوں کو گالیاں دیتا نظر آیا کیونکہ یہ حضرات اپنی تحریروں میں ان طبقات کو گالیاں ہی بولتے لکھتے نظر آتے تھے ۔

بلاشبہ غریب عوام کا سب سے بڑا مسئلہ پیسہ نہیں  ہے  کہ غربت کے تو عوام ہزاروں لاکھوں سال سے عادی ہیں، عوام کا مسئلہ تو ذلت ہے  جو عوام کو پولیس عدالتوں اور طاقتور لوگوں کے ہاتھوں اٹھانی پڑتی ہے ۔
اس لئے جو بھی ان ظالموں کو للکارتا ہے  ،گالی دیتا ہے وہ عوام کا ہیرو بن جاتا ہے، ایسے میں جبکہ ہم روز پڑھتے ہیں کہ  کچھ صحافی جو کہ  زیادہ مشہور بھی نہیں  ہوتے وہ پر اسرار طور پر نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں جبکہ ہمارے یہ ہیرو دہائیوں سے پورے جاہ وجلال کے ساتھ ظالموں کو سر عام گالیاں دیتے  ہیں  لیکن پورے پاکستان کے علامتی ظالم ان کے بہترین دوست ہیں اور یہ ظالم ان ہیروز کی بہت عزت بھی کرتے ہیں ۔
تو پھر وہ جو قتل ہو جاتے ہیں ان کا کیا قصور یا غلطی ہوتی ہے؟

تو میرے بھائیوں اصل میں جو قتل ہوتے ہیں وہ صرف طبقوں کو یا ان کی علامتوں کو ظالم نہیں  کہتے  وہ ہر ظالم کا انفرادی طور پر نام لیکر اوراس کے ظلم کی نوعیت بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں وہ ظلم کے  ذاتی دشمن بن جاتے ہیں ۔
اور  ذاتی دشمنی وہ بھی طاقتور کے ساتھ ۔۔قتل ہونا تو پھر بنتا ہے ۔
جبکہ ہمارے یہ ہیرو اصل میں ٹاپ لیس قلم کے مالک ہیں یہ  ذاتی طور کسی ظالم کو ظالم نہیں  کہتے ،یہ ہمیشہ پولیس ،جاگیر داروں، وڈیروں ،بیوروکریٹس، سیاستدانوں کو برا کہتے ہیں، کسی کا نام نہیں  لیتے اور یہ ہیرو اصل طاقتور اور اس کی طاقت کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔ اس لئے کبھی بھی اس اصل طاقتور کو ظالم نہیں  کہتے ،اس کو علامتی طور پر بھی برا نہیں   کہتے، بلکہ اس طاقت کے اصل ساتھی و مددگار یہی ہمارے  ہیرو دانشور ہوتے ہیں کیونکہ یہ دہائیوں تک عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کے پھر جب عوام تعاقب سے اکتا کے ان کے مالکوں کا گریبان پکڑنے کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں تو یہ بڑی مہارت سے اس ٹرک کو گالیاں نکال کے کسی دوسرے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں  اور عوام کو سابقہ ٹرکوں کو کوسنے پر لگائے رکھنے کا ہنر ان کو خوب آتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ  ہمارے ان ہیروز کی دانشمندی ہے کہ  دہائیوں سے چمکتے دمکتے ستاروں کی مانند اخبار کے سیاہ صفحات سے رنگینیوں کی تاریکی میں بھی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں  ،ظالموں کو گالی دینے کا لطف
اور ان کی کامیابی اور سگارانہ ٹھاٹھ باٹھ  دیکھ کے اور بھی کئی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کامیابی کے راستے پر گامزن ہوچکے ہیں ۔
نوجوان لکھاریوں کے لئے یہی سبق ہے کہ  کبھی بھی اصل سب سے بڑے ظالم کو ظالم نہیں  کہنا، کبھی کسی کو  ذاتی طور پر ظالم نہیں  کہنا،نہ   گالی دینی ہے، جس کو اصل طاقتور کہے اس کو دل کھول کے گالیاں دینی ہیں ۔
یہی راز ہے لمبی شاہانہ سگارانہ زندگی گزارنے کا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply