کپاس (13) ۔ عالمی کمرشل رقص/وہاراامباکر

جنگی کیپٹلزم کے نظام کا دنیا پر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں غلبہ رہا۔ اس کا انحصار امیر اور طاقتور یورپیوں کے لئے دنیا کو دو الگ حصوں میں تقسیم کرنے میں تھا۔ ایک “اندر” اور ایک “باہر”۔ اندر والی دنیا میں قانون تھے، ادارے تھے، انسانی حقوق تھے۔ باہر کی دنیا پر غلبہ تھا، غلامی تھی، زبردستی تھی۔
یورپ کے اپنے اندر یہ بڑی تبدیلیاں لایا۔ نیدرلینڈز، برطانیہ اور فرانس وہ اٹلانٹک پاورز تھیں۔ انہوں نے روایتی یورپی طاقتوں کو جگہ سے ہٹا دیا۔ بحیرہ روم پر منحصر شمالی اطالیہ اور وینس اس دور میں پیچھے رہ گئے۔ اور اس سب ہلچل کے درمیان 1600 میں فلیمش مہاجرین کی انگلش شہروں میں آمد وہ واقعہ تھی جس کے سب سے طویل مدتی اثرات ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ میں کاٹن کی صنعت سترہویں صدی کے آغاز پر فلمیش مہاجرین اپنے ساتھ لائے۔ کاٹن مینوفیکچرنگ کے ماہر پروٹسٹنٹ ہونے کی وجہ سے مذہبی جبر کے وجہ سے بھاگ کر یہاں آئے تھے۔ 1601 میں پہلی مقامی صنعت برطانیہ میں لگی جو اگلی دہائیوں میں شمالی انگلینڈ میں لنکاشائر میں اسٹیبلش ہوئی۔
سوتی اور اونی کپڑے بنانے والی صنعت اس طرف منتقل ہونے لگی۔ کپاس پہلی بار مقامی کاشتکاروں نے بوئی۔ اس کے لئے تاجروں نے کاشتکاروں کو قرض دئے۔ سرمایہ بڑھنے لگا اور سترہویں صدی میں برٹش صنعت نے جڑ پکڑ لی۔
برٹش کپاس کے مزدور ہندوستانیوں کی طرح نہیں تھے بلکہ مکمل طور پر تاجروں پر منھصر تھے اور زیادہ پاور نہیں رکھتے تھے۔ برٹش قرض دینے والا ہندوستانی بنئے سے زیادہ طاقت رکھتا تھا۔ ہندوستانی جولاہا بنیے سے آزاد تھا لیکن انگریز جولاہا نہیں۔ اس سب کی اہمیت بہت بعد میں جا کر سامنے آئی۔ یورپ میں یہ صنعت بہت چھوٹی تھی اور بڑھوتری کی رفتار سست۔ خام مال کی دستیابی کم تھی۔ عثمانیہ سلطنت سے کپاس کے علاوہ مشرق سے انگورا کی بکری کا اون اور ریشم آیا کرتی تھی۔
کپاس کی درآمد کا بڑا اور اہم سورس جزائر غرب الہند بنے۔ اگرچہ چینی کے مقابلے میں اس کی آمد کم تھی۔ اس کی آمد سے کپاس کی امپورٹ کے لئے عثمانیوں پر انحصار کم ہو گیا۔ 1770 سے پہلے یورپیوں کے پاس دام پر کنٹرول نہیں تھا۔ نہ ہی اس پر کہ کپاس کی کتنی پکاشت کی جائے۔ مقامی کاشتکار مرضی سے سودا کیا کرتے تھے۔ اور یہاں پر اہم تبدیلی آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹش انڈیا کمپنی کے ڈھاکہ گودام میں 1730 سے ملٹری اور مسلح گارڈ تھی جس کا مقصد کمپنی کے بزنس کی حفاظت تھا۔ یہاں پر سوال یہ کہ تاجروں کے پاس فوج کیوں تھی؟ اس کی وجہ کمزور ہندوستانی ریاست بھی تھی اور دوسرے مسلح یورپی تاجر بھی۔ کئے گئے معاہدوں پر عملدرآمد کروانے کے لئے ہندوستان میں قانونی نظام موجود نہیں تھا۔ ایک سے معاہدہ کر کے دوسرے کو سامان بیچ دینا عام تھا۔ یہاں پر عدالتوں کے پاس نہیں جایا جا سکتا تھا تو اس کا طریقہ بزورِ بازو نکالا گیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مقامی گماشتے بھرتی کئے تھے۔ جو معاہدے کے خلاف وزری کرتا، گماشتے اس کو زدوکوب کرتے، منہ کالا کر کے پورے گاوٗں میں پھرایا جاتا تا کہ دوسرے ایسا کرنے کی جرات نہ کریں۔ دوسرا مسئلہ مقامی بااثر لوگوں سے تھا۔ تیسرا مسئلہ دوسرے ممالک کے مسلح تاجروں سے تھا۔
مقامی حکمرانوں کی آپس کی چپقلش کے نتیجے میں ان تاجروں کو بنگال کی حکومت 1765 میں باقاعدہ طور پر مل گئی۔ اور اگلی دہائیوں میں انہوں نے جنوبی ایشیا کے علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لینا شروع کر دیا۔ ایک کمپنی کا ایک ریاست پر قبضہ کرنا ایک انوکھا تصور تھا جو اکنامکس کی طاقت دکھاتا تھا۔
معاشی اور سیاسی طاقت کے ملاپ کا مطلب یہ ہوا کہ یورپی تاجروں کے پاس ٹیکسٹائل مینوفکچرنگ کے اوپر زیادہ کنٹرول آ گیا۔ کورومینڈل کے ساحل پر بااثر ہندوستانی بنیوں کی جگہ ایجنٹوں آئے جن کے اوپر تاجروں کا کنٹرول زیادہ تھا۔ یہ مڈل مین کاشتکاروں اور جولاہوں کو قرض دیتے تھے۔ اب پروڈکشن کا کنٹرول کمپنی کے پاس آ گیا۔ بنیے کی جگہ تنخواہ دار انڈین ایجنٹ نے لے لی۔ جولاہے اور کاشتکار کا انحصار ہمیشہ سے بنیے قرض پر رہا تھا۔ جبکہ بنیے کو مال کی قیمت میں دلچسپی نہیں تھی۔ ایجنٹ کے ذریعے اب مال کی قیمت کم کروائی جا سکتی تھی۔ کمپنی کو ایک اور فائدہ مقامی حکمرانوں کا تھا۔ ترانکور کے راجہ کے ظالمانہ نظام سے بچنے کے لئے جولاہوں نے کمپنی حکومت کے شہر ممبئی کی طرف ہجرت کو ترجیح دی۔ 1790 میں ممبئی کی طرف ان کو لانے کے لئے کمپنی نے حوصلہ افزائی کی۔ یہاں سے کمپنی کے لئے تجارت آسان تھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ وہ کمپنی کے سوا کسی اور کو مال فروخت نہیں کر سکتے تھے۔
کمپنی ایجنٹ کھڈیوں پر کپڑے کی کوالٹی چیک کرتے تھے۔ نجی تاجر کے لئے پیداوار کرنا منع تھا۔ ایجنٹ کی شکایت پر کمپنی گماشتے غیرقانونی پیداوار کے جرم پر ہنرمندوں کو سزا دیتے تھے۔ معاہدوں کی پابندی کروانے والا نظام اب کمپنی کے علاقوں میں نافذ ہو گیا۔ منہ کالا کر کے شہر میں پھرایا جانا یا کوڑے لگانا اس کی سزا تھی۔ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے۔ کپڑے کی قیمت گر گئی۔ جولاہوں کی آمدن اور معیارِ زندگی کم ہو گئی۔
ہندوستان سے 1727 میں تین کروڑ گز کپڑا برآمد ہوا تھا۔ 1795 میں آٹھ کروڑ گز سالانہ۔ برطانوی اور فرنچ مقابلے پر تھے۔ ڈھاکہ میں 1776 میں اسی ہزار spinner اور پچیس ہزار weaver تھے۔ سورت میں 1795 میں پندرہ ہزار کھڈیاں تھیں۔
ہندوستان سے کپاس، افریقہ سے غلام اور غرب الہند سے چینی ۔۔۔ سیارے پر ایک پیچیدہ کمرشل رقص کی صورت میں حرکت میں تھی۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر برطانوی سلطنت کے تجارتی راستوں کی۔ اس میں 1750 سے 1800 کے درمیان برطانوی بحری جہازوں کے سفر کے روٹ دکھائے گئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply