تو گویا ہم سب مجرم ہیں۔۔گل نوخیز اختر

پروفیسر صاحب انتہائی غلط انسان ہیں۔ زچ کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ میں نے بھلا ایسی کون سی انوکھی بات کہہ دی تھی اتنا ہی تو کہا تھا کہ الحمد للہ میں نے زندگی میں کبھی کوئی جرم نہیں کیا۔یہ سنتے ہی پروفیسر صاحب نے ہمیشہ کی طرح طنزیہ نظروں سے میری طرف دیکھا ’’کوئی چھوٹا موٹا جرم تو کیا ہی ہوگا‘‘۔ میں نے دانت پیسے’’نہیں! کوئی چھوٹا موٹا جرم بھی نہیں کیا۔‘‘ انہوں نے عینک سیدھی کی اورکرسی پر سیدھے ہوئے’’لو پھر میں تمہارے جرائم کی فہرست تمہیں گنواتا ہوں…گاڑی کے ٹوکن پورے ہیں؟‘‘ میں چونک اٹھا’’نہیں ایک شارٹ ہے لیکن کل پرسوں لگوا لوں گا‘‘۔پروفیسر صاحب مسکرائے’’جب تک نہیں لگوا لیتے تب تک یہ جرم ہی شمار ہوگا۔ گھر میں جنریٹر ہے؟میں نے اثبات میں سرہلایا’’ہاں جی‘‘۔’’کس پر چلاتے ہو‘ پٹرول پر یا گیس پر؟؟؟‘‘
’’گیس پر‘‘
’’یہ بھی جرم ہے‘‘
مجھے غصہ آگیا’’کمال کرتے ہیں آپ بھی‘ یہ بھی کوئی جرائم ہیں؟‘‘۔پروفیسر صاحب نے پھر بتیسی نکالی’’بھائی ہیں تو جرم ہی…چلو یہ بتاؤگھر کا مین گیٹ اندر کو کھلتاہے یا باہر کو؟‘‘حیرت سے میرا منہ کھل گیا’’باہر کو‘‘۔’’یہ بھی جرم ہے‘‘ پروفیسر صاحب نے کندھے اچکائے۔’’قاعدے کی رو سے تمہارا مین گیٹ گھر کی چار دیواری کے اندر ہی کھلنا چاہئے‘‘۔ میں نے دانت پیسے’’اگر گیٹ اندر کی طرف کھولوں تو گاڑی کھڑی کرنے کے بعد گیراج کیسے بند ہوگا؟‘‘۔’’یہ تمہارا مسئلہ ہے ‘ قانون کا نہیں‘‘۔پروفیسر صاحب نے کہا اور مجھے یقین ہوگیا کہ پروفیسر صاحب اپنی طبعی عمر پوری کرچکے ہیں۔
اُس روز پروفیسر صاحب نے عجیب و غریب جرائم میرے پلے ڈال دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا بغیر ڈاکٹری نسخے کے دوائی خریدنا‘ پچیس روپے کی سی ڈی سے کمپیوٹر میں سافٹ ویئر انسٹال کرنا‘اپنے نام سے خریدی ہوئی موبائل سم کسی اور کے زیراستعمال دینا،گلی میں قناتیں لگا کر کوئی تقریب کرنا‘ موٹر سائیکل کے دونوں شیشے نہ لگوانا‘ سائیکل کی گھنٹی نہ ہونا‘ زیبرا کراسنگ کے بغیر سڑک کراس کرنا‘ گھر کے باہر لان بنانا ‘ پبلک مقامات پر سگریٹ پینا‘گھر کے نقشے میں بغیر اجازت کوئی تعمیر کرنا‘ کالا شاپر استعمال کرناحتیٰ کہ واپڈا کو میٹر لگواتے وقت بتائی گئی اشیاء کے علاوہ بجلی کی دیگر چیزیں چلانا بھی جرم ہے۔میں نے بے بسی سے کہا’’ٹھیک ہے لیکن ان جرائم کی نوعیت تو بالکل ایسی ہی ہے جیسے اکثر دیواروں کے باہر لکھا ہوتاہے کہ ’’یہاں ’دیوار خراب‘ کرنے والے کو حوالہ پولیس کیا جائے گالیکن میں نے آج تک اس جرم میں کسی کو سزا ملتے نہیں دیکھی۔پروفیسر صاحب نے پہلو بدلا’’یہ تو گویا ایسی بات ہوگئی کہ چونکہ پاکستان میں آج تک کسی عورت کو سزائے موت نہیں ہوئی لہٰذا عورت کو قتل معاف ہے۔بڑے جرائم ہمیشہ چھوٹے جرائم سے نکلتے ہیں۔ہمیں یہ اس لیے چھوٹے جرائم لگتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ان پر کبھی سزا نہیں ملتی‘ ہم اپنے گھروں میں عام طور پر بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ بجلی کا بٹن وغیرہ دبانے سے پہلے جوتا ضرور پہن لیا کریں حالانکہ آج کل جو بٹن آرہے ہیں وہ بڑے محفوظ ہیں اور انہیں بغیر جوتا پہنے بھی آرام سے آن آف کیا جاسکتاہے‘ لیکن بچوں کو کرائی جانے والی پریکٹس انہیں آئندہ زندگی میں کسی بڑے حادثے سے بچا سکتی ہے۔‘‘ میں نے آہستہ سے پوچھا’’کیا ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو جرائم قرار دینے اور سزائیں دینے سے ایک عام انسان کی زندگی اجیرن نہیں ہوجائے گی‘‘۔ انہوں نے پائپ میں تمباکو بھرا’’اجیرن اس لیے ہوجائے گی کہ ہم ان باتوں کے عادی نہیں‘ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمیں اچانک کہا جائے کہ کل سے کوئی گاڑی چلاتے ہوئے آپس میں گفتگو نہیں کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جن جرائم کا میں نے ذکر کیا ہے اگر ان پر شروع سے ہی عمل کا سلسلہ جاری رہتا تو آج کوئی ان سے بے خبر نہ ہوتا‘ جرائم کی طرح ایک عام آدمی اپنے حقوق سے بھی بے خبر ہے۔اسے پتا ہی نہیں کہ کوئی قیمتی چیز خریدتے وقت گارنٹی کارڈ کیسے سائن کرنا ہے ‘ دکاندار بھی خالی گارنٹی کارڈ مہر لگا کر اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور وہ خوش ہوجاتاہے کہ خریدی ہوئی چیز کی گارنٹی مل گئی ہے۔لیکن جب اس کی چیز خراب ہوتی ہے تو کوئی گارنٹی کارڈ کام نہیں آتا اور نہ ہی اسے پتا ہوتاہے کہ اب کیا کرنا ہے لہٰذا خاموش ہوکر بیٹھ جاتاہے۔‘‘پروفیسر صاحب کی باتیں سن کر مجھے یکدم اپنا آپ مجرم لگنے گا۔ غور کیا تو پتا چلا کہ میرے جرائم کی لسٹ بہت طویل ہے۔ جن دنوں ٹی وی کا لائسنس بنوانا ضروری ہوتا تھا ان دنوں میں بغیر لائسنس کے ٹی وی دیکھتا رہا ہوں۔ ریڈیو کا لائسنس بھی ایک دور میں ضروری تھا جو میں نے نہیں بنوایا۔ شناختی کارڈ پر گھر کا ایڈریس بھی پرانا چل رہا ہے۔گھرمیں ٹینکی تک پانی چڑھانے کے لیے ’’چوا موٹر‘‘ بھی لگوا رکھی ہے۔پھاٹک بند ہونے کی صورت میں سائیکل کندھوں پر اٹھا کر ریلوے لائن بھی کراس کی ہے۔بس کے پیچھے لٹک کر بھی سفر کیا ہے۔ شب برات پر آتش بازی بھی کرتا رہا ہوں۔باغ سے مالٹے بھی چوری کرکے کھائے ہیں۔دھواں اڑاتی موٹرسائیکل بھی چلائی ہے اورامتحانات میں اُچک اُچک کر اگلے لڑکے کی نقل بھی کی ہے۔ ان تمام جرائم کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے ضمیر کی عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مجھے اپنے لیے خود کوئی ایسی سزا تجویز کرنی چاہئے جس سے میرے گزشتہ تمام ہولناک جرائم کا ازلہ ہوسکے ‘ لہٰذا میںنے خود کو حکم دیا ہے کہ ’’اے گل نوخیزاختر! تم فوری طور پر اپنے آپ کو دس ہزار روپے جرمانہ ادا کروبصورت دیگر تمہیں مسلسل تین دن تک ہر شام میٹھی چٹنی کے بغیر دو سموسے کھانے ہوں گے‘‘۔انسان اپنا وکیل اور جج خود بن جائے تو ایسی ہی سزائیں سناتا ہے۔ ہم سے قتل بھی سرزد ہوجائے تو ہم خودکو باعزت رہائی کے قابل سمجھتے ہیں۔ ضمیر کی عدالت میں کوئی سول کورٹ‘سیشن کورٹ‘ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ نہیں ہوتی۔یہ عدالت عموماً ہمارے حق میں فیصلہ دیتی ہے ، کبھی جیل نہیں بھجواتی۔بس اتنا ہوتاہے کہ نیند روٹھ جاتی ہے۔ساری رات آنکھیں بند ہوتی ہیں اور ہم جاگ رہے ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply