راز پر لب کشائی۔۔۔۔ڈاکٹر خالد سہیل/مقدس مجید ( قسط نمبر 1)

معزز قارئین!
“Sharing the Secret”
بچپن میں جنسی زیادتی کی شکار خاتون جیمی اور ان کے تھراپسٹ ڈاکٹر سہیل کے مکالمے پر مبنی کتاب ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سہیل نے اس کتاب کے ترجمے کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ اس کے ہر باب سے میں بچپن میں زیادتی کے شکار لوگوں کی نفسیات اور تھراپی کے حوالے سے گہری اور دلچسپ معلومات حاصل کر سکی۔ چند باب آپ کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہوں گی!)
تعارف: راز پر لب کشائی
جیمی لاکلین
یہ ساری داستان ایک راز سے شروع ہوتی ہے۔ ایسا راز جسے کبھی چھپایا نہیں جانا چاہیے تھا۔ ایسا راز جس سے میں جانتی ہوں کہ میں کبھی فرار نہیں حاصل کر سکتی۔
میں نے اپنے سامنے بیٹھے شخص کی مہربان آنکھوں سے نظریں چرا لیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے ہم دونوں ہفتے میں ایک دفعہ مل بیٹھتے ہیں لیکن آج میں ان کی مہربان آنکھوں میں نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میری آنکھوں میں شرمندگی اور درد دیکھ لیں۔ میں گھبرا کر اپنی کرسی میں دبک کر بیٹھ گئی۔ میری آنکھیں جل رہی تھیں۔ ہم دونوں مل کر کھوج لگا رہے تھے کہ کیوں میرے لیے دوست بنانا مشکل کام ہے اور دوستی کو نبھانا مشکل تر۔ جتنا زیادہ میں اس بارے میں سوچتی چلی گئی جواب اتنا ہی واضح ہوتا گیا۔ اس کا سرا ایک راز نکلا جسے میں اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہر کسی سے چھپاتی تھی۔ اس راز نے مجھے زندگی کے دو اسباق پڑھائے تھے پہلا یہ کہ کبھی کسی پر بھروسا نہیں کرنا چاہئیےاور دوسرا یہ کہ میری کوئی وقعت نہیں۔
ان دونوں باتوں نے مجھے سب سے جدا اور تنہا رکھا۔ ایسا بھی نہیں کہ میں اکیلی رہتی ہوں ۔ میرا خاندان ہے، خاوند ، بچے، ماں اور سسرال والے ہیں اور میں اکثر ان میں گھِری رہتی ہوں لیکن اس سب کے ہونے کے باوجود میرا پوشیدہ راز مجھ میں شدید تنہائی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ان خطوط کے ذریعے میں اور ڈاکٹر سہیل میرے رشتوں کی مشکلات اور میرے ماضی کے رازکی گہرائی میں اتر کر انہیں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
مخلص
جیمی لاکلین
ڈاکٹر خالد سہیل
تعارف
ترغیب دینے والے خطوط
ڈاکٹر سہیل
معزز قارئین!
ہمارے چاروں اطراف بہت سی لڑکیاں، نوجوان خواتین، لڑکے اور نوجوان مرد ایسے ہیں جنھیں بچپن میں جسمانی، جذباتی اور جنسی زیادتی کا سامنا ہوا اور وہ آج بھی خاموشی سے ان بچپن کی زیادتیوں کے اثرات کو سہہ رہے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی کہانی اور راز سنانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اس راز سے ان کی شرمندگی اور ندامت وابستہ ہے۔ آج بھی لوگوں کے جذباتی مسائل کو ٹیبو taboo اور سٹگماstigma کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بچپن میں زیادتیوں کا سامنا کرنے والے لوگ اینزائٹی ، ڈپریشن حتیٰ کہ خودکشی کے خیالات کا شکار رہتے ہیں کیونکہ انھوں نے ماضی میں اپنے ساتھ پیش آنے والی زیادتیوں کی تکلیف دہ یادوں کو اپنے ذہن میں کہیں دفن کر لیا ہوتا ہے۔
پچھلے کئی سالوں میں  میں ایسے بہت سے تھیراپسٹس سے ملا ہوں جو بچپن مین جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے مریضوں کے ساتھ کام کرنے سے جھجھکتے ہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ جیمی کی کہانی نوجوان خواتین اور مردوں کو ترغیب دے گی کہ وہ بھی تھراپی کرائیں اور نوجوان تھیراپسٹس کو تحریک دے گی کہ وہ ایسے لوگوں کی مدد کریں تاکہ ماضی میں زیادتی کے شکار لوگ صحت یاب ہو سکیں اور آگے بڑھ کر ایک خوشگوار، صحت مند اور پرامن زندگی بسر کر سکیں جسے ہم گرین زون کی زندگی کہتے ہیں۔
مخلص
ڈاکٹر  خالدسہیل

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply