فلسطین (31) ۔ غزہ کے راکٹ/وہاراامباکر

برٹش دور میں غزہ ایک پسماندہ علاقہ تھا جہاں عرب اور یہودی تنازعہ باقی علاقوں کے مقابلے میں کم رہا تھا۔ 1949 کی جنگ بندی کے بعد یہ علاقہ مصر کے پاس چلا گیا اور اس کی اٹھارہ سالہ حکومت میں یہ فلسطینی نیشلزم کا گڑھ بن گیا، جہاں سے اسرائیل میں گوریلا حملے کئے جاتے تھے۔ 1967 سے 2005 کے اسرائیلی قبضے میں یہاں کے گنجان آباد اور غربت سے بھرے مہاجر کیمپ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا مرکز بنے۔ پہلا انتفاضہ دسمبر 1987 کو یہاں کے ایک کیمپ سے ہی شروع ہوا لیکن اسرائیل کے لئے مغربی کنارے زیادہ دلچسپی کی جگہ تھی۔ غزہ کی کوئی خاص نظریاتی یا سٹریٹجک اہمیت نہیں تھی۔ اسرائیلی وزیرِاعظم اسحاق رابین نے 1992 میں فقرہ کہا تھا کہ ان کی طرف سے غزہ چاہے “سمندر میں غرق ہو جائے”۔
جب اوسلو میں امن مذاکرات ہوئے تو اسرائیل نے غزہ کو 1994 میں بڑی خوشی سے فلسطین اتھارٹی کے حوالے کر دیا تھا۔ اس سے گیارہ سال بعد 2005 میں امن پراسس ختم ہو چکا تھا اور دوسرا انتفاضہ بھی تو اسرائیل نے یہاں سے اپنی آبادیاں خالی کر دیں اور فوج واپس بلا لی۔
حماس کے 2007 میں اقتدار میں آنے کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی۔ اسرائیل نے یہاں پر 2008 اور 2009 میں اور پھر 2012 اور پھر 2014 میں اور اب حالیہ 2021 میں حملے کئے۔ اس کے مقابلے میں مغربی کنارے سے ہونے والے حملے بہت کم ہوئے ہیں۔
غزہ کی طرف سے ہونے والے حملوں میں راکٹ اور گولے فائر ہونا، اسرائیلی فوجیوں اور کھیتوں میں کام کرنے والوں پر فائرنگ، لگائے گئے جنگلے کے ساتھ دھماکہ خیز مواد پھوڑنا شامل رہے ہیں۔
زیادہ مشہور واقعہ پچیس جون 2006 کو پیش آیا جب ایک کارپورل گلاد شالیت کو پکڑ لیا تھا اور پانچ سال قید میں رکھا۔ شالیت کو ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا گیا۔ اس کے علاوہ آتش گیر مادے والے پتنگیں یا غبارے بھیج کر فصلوں میں آگ لگانا ایک اور حربہ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے زیادہ توجہ راکٹ برسانے نے لی ہے۔ نہ صرف یہ تعداد میں زیادہ ہوئے ہیں بلکہ زیادہ دور تک پھینکے جانے والے اور زیادہ طاقتور بھی۔ اور دور کے شہروں تک جا سکتے ہیں۔
اگرچہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے کوئی ہلاک ہو۔ ان سے حفاظت کے لئے شیلٹر، محفوظ کمرے، وارننگ سسٹم اور 2011 میں نصب ہونے والا آئرن ڈوم سسٹم ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی ہلاکتیں بہت محدود رہی ہیں۔ لیکن خاص طور پر غزہ کے قریب کے چھوٹے شہر سدیروت کو ان سے زیادہ دشواری ہے کیونکہ راکٹ یہاں پندرہ سیکنڈ میں پہنچ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر رک کر یہ دیکھنا ہو گا کہ آخر حماس راکٹ کیوں پھینکتی ہے؟ (یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ تمام راکٹ اور گولے حماس کی طرف سے ہی فائر نہیں کئے جاتے) کیونکہ میڈیا کوریج میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کی جاتی۔
میڈیا میں ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے حماس نفرت کی آگ میں جلنے والی تنظیم ہے جو اسرائیل کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ کوئی بیماری یا غصہ کی آگ نہیں بلکہ حکمتِ عملی ہے۔
حماس کا ملٹری ونگ 1991 میں قائم ہوا اور اس نے تشدد کو مختصر مدت اور طویل مدت مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔
حماس کی نظر میں یہ قومی آزادی اور کالونیل طاقت کو گزند پہنچانے کا معاملہ ہے۔ اور اس کے لئے مسلح مزاحمت ایک نفسیاتی حربہ ہے۔ یہ اسرائیلی سوسائٹی کے مورال پر فرق ڈالتا ہے اور طویل مدت میں اس کے لئے یہ اسرائیل کے لئے قبضہ برقرار رکھنا مہنگا بنا دیتا ہے۔ یہ طویل جنگ کا حربہ ہے۔
نوے کی دہائی میں شروع ہونے والا حماس کا طریقہ خودکش حملوں کا رہا جو بیس سال تک جاری رہا (ان کا آغاز حزب اللہ نے کیا تھا)۔ اسرائیل نے جب دیوار بنائی تو یہ موثر نہیں رہا۔ پھر راکٹ اور گولوں پر شفٹ ہونا پڑا۔ اس کی ایک اور وجہ حزب اللہ کی طرف سے 2006 کی جنگ میں ان کا کامیاب استعمال بھی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راکٹ حملوں کی ایک اور کیلکولیشن بھی ہے۔ ان میں اضافہ یا کمی یا کچھ دیر کے لئے بالکل ختم کر دینا حالات کے حساب سے کیا جاتا ہے۔
کیونکہ یہاں ایک اور تاریک ستم ظریفی ہے۔ اس علاقے کو عالمی توجہ اس وقت ملتی ہے جب کوئی واقعہ ہو۔اور اس وقت اسرائیل پر سفارتی دباوٗ میں اضافہ ہوتا ہے۔ راکٹ حملوں سے اسرائیل ردِ عمل بھی آتا ہے اور ساتھ عالمی توجہ بھی۔ اور غزہ کے شہریوں کے لئے عالمی امداد بھی۔
ان کا ایک اور مقصد حماس کے لیڈروں کو قتل کرنے کا بدلہ لینا ہے۔ جب اسرائیل ایسا کرتا ہے تو اس کو سزا کے طور پر جواب دینے کے لئے راکٹ پھینکے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد بھی یہ ہے کہ اسرائیل کے ایکشنز پر اس کے لئے قیمت اونچی کر دی جائے تا کہ وہ انہیں دہراتے وقت ذرا احتیاط کرے۔
ایک اور مقصد یہ دکھانا بھی ہے کہ حماس مسلح جدوجہد پر یقین رکھتا ہے۔ اس کی بھی ایک اور تاریک وجہ ہے۔ حماس کو غزہ میں دوسرے عسکری گروپس سے مقابلہ ہے۔ ان میں دوسرا بڑا اسلامک جہاد ہے، جبکہ کچھ چھوٹے گروپس ہیں۔ یہ حماس پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے لڑنے کو تیار نہیں۔ اور ان گروپس کو اسرائیل پر راکٹ پھینکے سے روکتا ہے (اور یہ درست ہے)۔ ایک اور الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ غزہ پر حماس اسلامی شریعت کا نفاذ نہیں کر رہا۔ (اور یہ بھی درست ہے)۔
ان الزامات کا مقابلہ کرنے کے لئے، مزاحمت کی تنظیم کے طور پر شہرت برقرار رکھنا بیرونی ملک سے آنے والی مدد اور ممبران کی وفاداری کے لئے یہ ضروری ہے، جس میں یہ حملے مدد کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل کی طرف سے تباہ کن طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد حماس کو کوئی رعایت دئے بغیر راکٹ حملوں کا استعمال اس کے لئے مہنگا کرنا ہے۔ اسرائیل کو معلوم نہیں ہوتا کہ راکٹ کس نے فائر کئے، اس لئے وہ حماس کو ہی ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور تباہی پھیلانا اس کے لئے حربہ ہے کہ ان سے باز رہا جائے۔ بڑے آپریشن کے بعد ان کی تعداد میں کمی آ جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ آپریشن بحال کر لیا جاتا ہے اور پھر یہ چکر جاری رہتا ہے۔
پہلی غزہ جنگ میں 1300 فلسطینی اور 23 اسرائیلی ہلاکتیں ہوئی۔ دوسری غزہ جنگ پچاس روز تک جاری رہی، اس میں 2250 فلسطینی ہلاکتیں ہوئیں اور ایک لاکھ لوگوں کے گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی بے گھر ہوئی۔ اسرائیل کی طرف سے 72 ہلاکتیں ہوئیں۔
اس نے حماس کی عسکری صلاحیت کمزور کر دی، سیاسی اثر مضبوط کر دیا۔ یہاں پر یہ یاد رہے کہ اسرائیل کو غزہ پر حماس کا کنٹرول سوٹ کرتا ہے۔ کسی بھی حملے میں اس گروپ کو تباہ کرنے یا اسے پاور سے ہٹانے کا ارادہ نہیں تھا۔ اسے کمزور کرنا مقصد تھا لیکن اتنا نہیں کہ یہ علاقے کا کنٹرول برقرار نہ رکھ سکے۔ کیونکہ اسرائیل واپس غزہ میں فوج نہیں بھیجنا چاہتا اور غزہ کی گورننس کے لئے اس کا انحصار حماس پر ہے جو علاقے کا نظم و نسق بھی چلاتی ہے اور زیادہ ریڈیکل گروپس کو کنٹرول بھی کرتی ہے۔ اسرائیلی پالیسی میں حماس کی حکومت کا جاری رہنا“بری آپشنز میں سے بہترین” ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزہ کی جنگیں اسرائیل اور حماس کے مختصر مدت مقاصد پورا کرتی ہیں لیکن غزہ کے شہریوں نے ان کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ مرنے والوں کی اعداد ایک طرف، لاکھوں لوگ نفسیاتی صدمات کا شکار ہیں۔
اسرائیل کی طرف سے یہاں پر کی جانے والی بھاری طاقت کا استعمال اس کے لئے عالمی تنقید میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ خاص طور پر یورپی ممالک کی طرف سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نومبر 2018 میں نوبت تیسری غزہ جنگ تک آنے لگی تھی لیکن مصر اور اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے جنگ بندی ہو گئی۔ یہاں پر جنگ بندی ہمیشہ نازک رہی ہے اور کوئی توقع نہیں رکھتا کہ کوئی جنگ بندی زیادہ عرصہ رہے گی۔
کیا طویل مدت کا امن قائم ہو سکتا ہے؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ کیا اسرائیل اور حماس کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ معاہدہ بالواسطہ ذرائع سے کئے گئے مذاکرات سے ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے فلسطینی سائیڈ کی طرف سے غزہ کی معاشی مدد اور انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو کا مطالبہ ہے جبکہ حماس کی طرف سے قیدیوں کو آزاد کروانے کا بھی ہے۔
بدقسمتی سے ایسے معاہدے تک پہنچے کا امکان کم ہے۔ اگرچہ یہ امکان پھر بھی اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان ہونے والے امن معاہدے سے بہتر ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply