fbpx
  • صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، آپ کا بہت شکریہ۔۔۔آصف محمود

جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، آپ کا بہت شکریہ۔۔۔آصف محمود

رمضان کی مبارک ساعتوں میں شیطان قید اور میڈیا آزاد ہو جاتا ہے۔ اتفاق نہیں یہ ایک واردات ہے جو پورے اہتمام سے ڈالی جاتی ہے۔ اس کے پیچھے وہ فکر کارفرما ہے جسے میں سیکولر انتہا پسندی کہتا ہوں۔ ہر ماہ مقدس میں یہ انتہا پسندی مسلم معاشرے کی حساسیت کی توہین اور اس کی قدروں کی تذلیل کرتی تھی اور اس طوفان بد تمیزی کو دیکھ دیکھ کر جب دل ڈوبتا تھا تو میرے جیسے اس کے سوا اور کیا کرتے کہ دل میں ہوک کی صورت اٹھتے نوحوں کو قلم سے لکھ کر غم ہلکا کرتے۔ اس سال مگر افلاک سے ہمارے نالوں کا جواب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے تازہ فیصلے کی صورت آیا۔ رمضان تزکیہ کا مہینہ ہے ، افسوس میڈیا نے اسے تہوار بنا دیا۔ کبھی وقت ملے تو حدیث کی کوئی کتاب کھول کر دیکھیے رحمت عالم ﷺ اس کا استقبال کس اہتمام سے فرمایا کرتے تھے۔ خود ہمارا بچپن گواہ ہے کہ ہمارا سماج اس مہینے کو کیسے گزارا کرتا تھا۔ رمضان کا چاند طلوع نہیں ہوتا تھارحمتیں اور برکتیں اترتی تھیں جو ہم محسوس کرتے تھے۔ آخری عشرے کا تو ماحول ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ اب ہمارے گھروں میں بچے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ رمضان آتے ہی میڈیا آزاد ہو جاتا ہے۔ ایک آدھ استثناء کے ساتھ ، میڈیا نے رمضان کو ایک انٹرٹینمنٹ بنا دیا ۔ ماہ مقدس آتے ہی چینلز پر خصوصی مزاحیہ کھیل شروع ہو جاتے ہیں۔ بد زبان اور بد کلام معروف عالم دین بن کرمسلط ہو جاتے ہیں، سارا سال نیم برہنہ رہنے والی ماڈلز ہمیں دین سکھانے آ جاتی ہیں۔ بے ہودہ اور اخلاق باختہ شوز کے ہنگامے کان پھاڑنے لگتے ہیں۔ یہ اشتہارات تو ہم نے دیکھے اور سنے کہ اداکارہ نور سے سورہ نور کی تفسیر سنیے اور اداکارہ میرا اجتماعی توبہ کروائیں گی۔ ادھر افطار ہوتا ہے ادھر ٹی وی پر نیلام گھر سج جاتے ہیں جہاں اخلاقیات اور اقدار کی وہ دھجیاں اڑائی جاتی ہیں کہ قید میں شیطان بھی دیکھ لے تو کہے ’’ باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک‘‘۔ آخری عشرہ شروع ہوتا ہے تو عید کی تیاریوں کے نام وہ طوفان اٹھایا جاتا ہے کہ الامان۔ کیا آپ سمجھتے ہیں یہ سب کچھ اتفاق سے ہوجا تا ہے؟ ہر گز نہیں جناب۔ یہ سیکولر انتہا پسندی کا آزار ہے جو پوری منصوبہ بندی سے ہم پر مسلط ہوا ۔ مذہب اور مذہب سے وابستہ تمام علامات کے بارے میں سماج کی حساسیت کو ختم کرنا اس کا مقصد ہے۔ بلا مقصد یہاں کچھ نہیں ہوتا۔ رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر اس ملک میں جو ہوا اس کے مقاصد واضح ہیں۔ تزکیہ کے مہینے کو تفریح بنا دو۔ رمضان کے احترام اور عبادات کے اہتمام کی جو حساسیت پائی جاتی ہے اسے ختم کر دو۔ شعائر اسلامی کی روح کا مذاق اڑائو۔ اسے عام مہینوں جیسا ایک مہینہ بنا دو ۔ مسلم سماج اس مہینے کے بارے میں حساس ہے اس لیے اس مہینے کو تفنن طبع اور تفریح کا عنوان بنا دو۔ایسا نہیں کہ اسلام میں پاپائیت ہے اور مذہب پر بات کرنے کا حق صرف اہل مذہب کے لیے مخصوص ہے ۔لیکن ایسا بھی نہیں کہ لونڈے لپاٹے اور چھمک چھلو برگیڈ اپنے ناتراشیدہ رویوں سے دینی اقدار کا مذاق ہی اڑانے لگ جائیں۔ یہ لا دین انتہا پسندی آپ قدم قدم پر دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا کیا وجہ ہے کوئی نیوز کاسٹر دوپٹہ نہیں لیتی۔ وہ لیتی نہیں یا اسے لینے نہیں دیا جاتا؟ ویسے تو بڑا رواداری کا شور ہے ، تحمل اور برداشت کے درس دیے جاتے ہیں لیکن یہاں اپنی فکر پوری انتہا پسندی کے ساتھ مسلط کی جاتی ہے۔جمعیت علمائے اسلام کے حافظ حسین احمد نے ایک اینکر سے کہا کہ بیٹی یہ دوپٹی جو تمہارے کندھے پر خواہ مخواہ ہی پڑا ہوا ہے اگر تم اسے سر اور سینے پر ڈال لو تو ٹی وی کی کونسی اخلاقیات مجروح ہو جائیں گی؟اور ناظرین کیا ناراض ہو کر ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں گے؟ سوال یہ نہیں کہ ہر عورت دوپٹہ کیوں نہیں کرتی۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی خاتون نیوز کاسٹر سکرین پر دوپٹہ کر کے آنا چاہے تو کیا اس کی اجازت دی جاتی ہے اور کیا رواداری کے اصولوں کے مطابق نیوز کاسٹر کے اس فیصلے کا احترام کیا جا تا ہے؟ مذہب اور اپنی قدروں کے بارے میں پاکستان کا آئین بھی بہت واضح ہے۔ پھر پیمرا آرڈی ننس ہے ، پیمرا کا ایک ضابطہ اخلاق بھی ہے۔ احترام مذہب کی بات ہر جگہ کی گئی ہے۔پیمرا کے ضابطہ اخلاق کے ’’ بنیادی اصولوں ‘‘ میں سب سے پہلا اصول ہی اسلامی اقدار کا تحفظ ہے۔آئین کے آرٹیکل 19 میں جہاں میڈیا کی آزادی کی بات کی گئی ہے وہاں یہ بھی طے کر دیا ہے کہ اسلام کی شان و شوکت کے خلاف کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔کتنی دفعہ پیمرا نے نوٹس جاری کیے کہ اذان کو نشر کیا جائے۔ خیر دین کا گدھا اگر نور دین کی گدھی کو لات رسید کر دے تو یہ تو ہمارے آزاد میڈیا کے لیے بریکنگ نیوز ہوتی ہے اور پھولی سانس کے ساتھ گدھے اور گدھی کے آبائو اجداد کے بارے میں بھی ناظرین کو با خبر رکھا جاتا ہے لیکن اذان نہیں نشر کرنی۔ کیوں؟ سوال وہی ہے کیا یہ محض اتفاق ہے؟ جواب بھی وہی ہے: ہر گز نہیں ، یہ اتفاق نہیں یہ لادین انتہا پسندی کا آزار ہے جو دھیرے دھیرے ہمیں اپنی گرفت میں لیتا جا رہا ہے اور ہم اس ڈر سے احتجاج بھی نہیں کرتے کہ کہیں ہمیں دقیانوسی ہونے کا طعنہ نہ دے دیا جائے۔ اعتراض کریں تو جواب آتا ہے آپ ٹی وی بند کر دیں۔ بڑا ہی بے ہودہ جواب ہے۔یعنی ہم ٹی وی بند کر دیں لیکن آپ ماہ مقدس میں بھی اپنی ہم نصابی سرگرمیوں سے باز نہ آئیں۔ایسے حضرات کو آئین پاکستان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔بالخصوص آرٹیکل 31 کا جس کے مطابق ریاست نہ صرف اس بات کی پابند ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق گزارنے میں ان کی مدد کرے گی بلکہ وہ ایسے اقدامات کرنے کی بھی پابند ہے جس سے لوگ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔اسی طرح آرٹیکل 32 کے تحت حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی اخلاقی معیارات کی پابندی کو فروغ دے۔ میڈیا کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ سماج کی قدریں ، مذہبی ہوں یا اخلاقی، پامال نہیں کی جا سکتیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے میڈیا کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ میری طرح ہر وہ آدمی جو رمضان میں میڈیا کی اس اچھل کود اور طوفان بد تمیزی پر کڑھتا رہتا تھا ، اس فیصلے سے خوش ہے۔شکریہ ادا کرنا فرض کفایہ ہوتا تو کئی دوست یہ فرض ادا کر چکے ہیں۔ میرے نزدیک مگریہ فرض عین تھا۔ یہ کالم اسی فرض کی ادائیگی کے لیے لکھا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، آپ کا بہت شکریہ۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply