• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بنگلہ کے انقلابی شاعر قاضی نذر الا سلام اور کراچی میں ان کا قیام۔۔احمد سہیل

بنگلہ کے انقلابی شاعر قاضی نذر الا سلام اور کراچی میں ان کا قیام۔۔احمد سہیل

قاضی نذرالاسلام (1898-1976) مصنف، موسیقار اور تحریکی مزاحمت پسند دانش ورتھے۔ انہیں  بنگلہ دیش کا قومی شاعر قرار دیا گیا ہے۔ نذر کے نام سے شہرت یافتہ نذرالاسلام نے  بھارتی اسلامی نشاة ثانیہ کے لیے اپنی تحریک چلائی اور فاشزم اور  آپریشن کے خلاف کام کیا۔ سماجی مساوات کے لیے دم بھرنے والے نذر کو باغی شاعر کے خطاب  سے عوام  نے  نوازا گیا۔

نذر الاسلام بنگلہ دیش کے قومی شاعر ہیں۔عموماً وہ باغی اور انقلابی شاعر کے طور پر مشہور ہیں۔اس کے علاوہ وہ ایک عظیم موسیقاراورفلسفی بھی ہیں۔آزادی کی جدوجہد ، خصوصاً مسلمانوں کی بیداری کے سلسلے میں نذر الاسلام کے نغموں نے جو کام کیا، وہ یاد گار ہے۔ نذرالا اسلام کی شاعری اتنی وسیع و کثیر ہے اور بیک وقت اتنی جہتیں ہیں کہ نہ اسے لفظوں میں سراہا جا سکتا ہے نہ انہیں کسی ایک نام یا لقب سے یاد کیا جاسکتا ہے۔ وہ قاضیوں کےایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ خوش الحان تھے اور سیر و سیاحت کے شوقین تھے ۔ لہٰذا اوائل عمر میں گانے والوں کی ایک ٹولی میں شامل ہو کر گاؤں گاؤں، قریہ قریہ گھومےپھرے ۔والد سے فارسی کی تعلیم حاصل کی اور سکول سے سنسکرت پڑھی۔ میٹرک میں تھے کہ اپنی لااُبالی طبیعت اور مالی پریشانی کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر نانبائی کی دکان پر نوکری کر لی کچھ دن ریلوے میں گارڈ بھی رہے اور اس کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے۔شاعری کا مشغلہ اور موسیقی کی مشق جاری رکھی اور ان کی نظمیں کلکتے میں چھپنے لگیں اور ان کی شناخت بننا شروع ہوئی۔

وہ ۱۹۱۷ میں فورٹ ولیم کولکتہ سے ۴۹ نمبر، بنگالی پلٹن( رجمنٹ)میں سپاہی بھرتی ہو کر نوشہرہ( اب خیبر پختون خوا ، پاکستان)آ گئے۔ پھر تین ماہ فوجی تربیت کے بعد کراچی چلے آئے۔اور کراچی کی چھاونی نیپر بیرک میں قیام پذیر رہے۔ ان کی فوجی زندگی کا آغاز ۱۹۱۷ء میں اور اختتام ۱۹۱۹ء  میں  ہوا۔ کراچی کی سپاہیانہ تربیت ان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے، وہ جلد ہی ترقی کرکے سپاہی سے ماسٹَر کارپول ( نائیک) اور پھر حولدار ہوگئے۔ کراچی میں انھیں نت نئے تجربات عطا کیے اور ان کی فکر و بصیرت کو بالیدگی بخشی۔

نذر الاسلام کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز کراچی کیمپ سے ہوا۔ وہاں ان کی ملاقات ایک پنجابی مولوی صاحب سے ہوئی جنہوں نے انھیں حافظ شیرازی کی کئی غزلیں سنائیں۔ مولوی صاحب مذکور سے دیوانِ حافظ، مثنوی مولانا روم اور فارسی کی دوسری مشہور کتابیں بھی پڑھیں۔ اس مطالعہ نے ان کی ادبی ذہانت و صلاحیت پر گہرا اثر ڈالا۔ انھوں نے بعد میں رباعیاتِ حافظ اور عمر خیام کی ۱۹۸ رباعیات کا منظوم بنگلہ ترجمہ کیا۔ قاضی نذر الاسلام بنگلہ کے علاوہ ہندوستانی، سنسکرت اردو، فارسی اور عربی بھی جانتے تھے۔ ان کا پہلا مقالہ ترک مہیلا رگھومٹا کھلا (ترکی خاتون کی بے حجابی) دلنواز کلکتہ سے طبع ہوا۔ جو کراچی کیمپ کے دورانِ  قیام میں لکھا گیا۔ اس  کے علاوہ ان کی بہت سی تحریریں جو وہ کراچی سے اشاعت کے لیے کلکتہ کے جرائد کو بھیجا کرتے تھے، تلف ہو جاتی تھیں۔

کراچی کیمپ میں ہی روس کے اشتراکی انقلاب اور افکار سے آگاہی حاصل ہوئی۔ اشتراکی نظریات کے زیر اثر انھوں نے بعد میں مساوات اور غریبوں، کسانوں ، مزدوروں اور ملاحوں وغیرہ کے حقوق کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے بے شمار نظمیں لکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کراچی کیمپ ہی میں انھیں مغربی آلاتِ موسیقی اور فوجی دھنوں سے واقفیت حاصل ہوئی۔ شام کے فارغ وقت میں نذر الاسلام اپنے دوست احباب کے ساتھ آلاتِ موسیقی کے استعمال سے گیت گاتے۔ ان آلات اور فوجی دھنوں نے ان کی بعد ازاں شاعری پر اثر ڈالا۔ کیونکہ انھوں نے بہت سے انقلابی گیت ان فوجی دھنوں پر لکھے، مثلاً:
چل! چل! چل!
اٹھ اے نوجوان طبل بجا
وہ کانپے دشت اور جبل
قدم اٹھا سنبھل سنبھل
وطن بلا رہا ہے چل
چل! چل! چل!
اٹھ اور اک نئی سحر
اُفق سے آشکار کر
زمین کی تیرگی مٹا
فلک کو زر نگار کر
زمانے کی روش بدل
وطن بلا رہا ہے چل
چل! چل! چل!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply