زمانہ نہیں ہماری سوچ بُری ہے۔۔عاصمہ حسن

عام طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ بحیثیت انسان ہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم نہیں کر تے ،ـ پہلے تو یہ ادراک ہی نہیں ہوپاتا کہ ہم غلط ہیں یا ہو سکتے ہیں، اگر یہ احساس ہو بھی جائے تو ہم اپنی ذات کی تسکین کے لئے اس کو جھٹلا دیتے ہیں، نفی کر دیتے ہیں اور سارا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ ہماری سوچ ہی ہے جو ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور ہمیں ہمارے ہی خود فریبی کے حصار میں قید کر دیتی ہے ـ اسی سوچ کی وجہ سے ہمارا عمل دین کی تعلیمات اور اللہ کے احکامات کے منافی ہو جاتا ہے اور اس کی پاداش میں میں اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں’ بیماری گھیر لیتی ہے یا کوئی مشکل آجاتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ زمانہ بہت برا چل رہا ہے ـ یہ سال’ مہینہ ‘ہفتہ یا دن ہی بڑا منحوس ہے جس کی وجہ سے مجھے نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے یا میں اس عذاب میں مبتلا ہوں۔

زمانے کو برا بھلا کہنا مناسب نہیں اور یہ بات ہمارے رب ، اس جہان کے خالق کو بھی پسند نہیں، ـ کیونکہ یہ ساری کائنات’ سورج’ زمین’ چاند’ ستارے ان کی گردش’ دن و رات کا سفر’ روشنی کی کرنیں ‘ بادل ‘ بارش کا ہر قطرہ ‘ بے جان اور جاندار ہر شے اس ذات کی محتاج ہے ـ ،اللہ تعالی نے کوئی چیز بلا جواز پیدا نہیں کی ،ـ حتی کہ  ہوا’ آندھی ان کے چلنے میں بھی ہم انسانوں کے لئے راز پنہاں ہیں ـ ،طوفان’ زلزلے سب اس کے حکم سے آتے ہیں لہذا زمانہ کو برا بھلا کہنا دراصل اللہ اور اس کے احکامات کو برا بھلا کہنا ہے جو اللہ کو بے حد نا پسند ہے ـ۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں” ابن آدم کو گالیاں دے کر (برا بھلا کہہ کر) مجھے ایذا پہنچاتا ہے کیونکہ (درحقیقت) میں ہی زمانہ (کا خالق اور مالک ) ہوں ـ دن رات کو میں ہی تبدیل کرتا ہوں ـ”

ایک دوسری روایت ہے کہ ” زمانہ کو گالی مت دو (برا بھلا مت کہو) کیونکہ درحقیقت اللہ تعالی ہی زمانہ ہے ”

دراصل ہم اپنی سوچ کے تابع ہیں جیسا ہم سوچتے ہیں ویسا ہی ہوتا ہے اس لئے سب سے اہم یہ ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو مثبت رکھنا چاہئیے اور اس پر کام کرنا چاہیے۔ہم اپنی قسمت خود بناتے ہیں اور یہ صرف سوچ کو بدلنے سے ہی ممکن ہے ـ کامیابی بھی انہی کے قدم چومتی ہے جو مثبت سوچ رکھتے ہیں اور زندگی سے خوش بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جو منفی پہلو سے بھی مثبت پہلو نکال لیتے ہیں ـ۔

ہمارا عمل ہماری سوچ پر منحصر ہوتا ہے اگر سوچ اچھی اور مثبت ہوگی تو عمل بھی بہترین ہو گا ـ پھر ہمیں ہمارے اعمال کا صلہ ملتا ہے یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ‘ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے ـ اللہ تعالی اکثر دنیا میں ہی ہمارے اعمال کے مطابق ہمیں لوٹا دیتے ہیں لہذا اپنا محاسبہ کر لینا چاہیے کہ ہم سے کہاں کوتاہی ہوئی ہے ـ ہمیں فوراً اللہ تعالی کی طرف رجوع کر لینا چاہیے۔ ـ

سب سے اہم ہمارا ایمان ہے اگر ہمارا اللہ تعالی اور اس کی قدرت پر یقین ہو گا تو کوئی مشکل’ تکلیف’ پریشانی یا آزمائیش ہمیں مایوس نہیں ہونے دے گی ـ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ سب اللہ تعالی کی طرف سے ہے خوشی بھی اور غم بھی تب ہمارے اندر سکون اتر جاتا ہے ‘ جب ہم اپنے آپ کو اور خود سے منسلک ہر کام اور رشتہ کو اللہ کی پناہ میں دے دیتے ہیں تب کوئی پریشانی ‘ پریشانی نہیں رہتی ـ جب ہم یہ سوچ لیتے ہیں کہ یہ ناکامی جو ہمیں ملی ہے اس کے پیچھے اللہ ہے تاکہ ہمیں سبق حاصل ہو سکے اور ہم اپنے تجربات سے سیکھ کر کندن بن سکیں تب ہمیں ہماری منزل زیادہ صاف نظر آتی ہے ـ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سمت جس کو ہم اپنی منزل سمجھ رہے ہیں وہ ہمارے لئے ہے ہی نہیں اور قدرت نے اس سے کہیں اچھا ہمارا لئے سوچ رکھا ہے ـ۔

جب مایوسی اور اندھیرا بہت زیادہ چھا جائے تو اللہ تعالی سے ہم کلام ہوں اس کے سامنے گڑگڑائیں اس کے سامنے دل کھول کر رکھ دیں اور اپنا ہر عمل اس کے سپرد کر دیں کیونکہ اس کو ہمارا مانگنا اور صرف اس کے آگے ہاتھ پھیلانا اور سر جھکانا بے حد پسند ہے ـ پھر وہ بند در بھی کھولتا چلا جاتا ہے اور آسانیاں پیدا کر دیتا ہے ـ۔
مایوسی کفر ہے پھر یہ کہنا کہ یہ وقت خراب ہے یا زمانہ خراب ہے یہ اس سے بھی بڑا گناہ ہے ـ۔

اللہ اپنے بندوں کا برا چاہ ہی نہیں سکتا ہمیں وہ ملتا ہے جس کی ہم تگ و دو کرتے ہیں ‘ محنت کرتے ہیں ـ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کامیابی کے بہت قریب ہوتے ہیں لیکن حالات سے مایوس ہو کر پلٹ جاتے ہیں ـ حالانکہ منزل چند قدم کے فاصلے پر ہوتی ہے لیکن ہمیں چونکہ ہر کامیابی’ آسائش  حاصل کرنے کی جلدی ہوتی ہے اس لئے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی منفی سوچ کی وجہ سے نقصان اٹھاتے ہیں ـ۔

ہم اس لئے بھی پریشان و مضطرب رہتے ہیں کیونکہ ہم ماضی کی یادوں کو تاذہ رکھتے ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتی ‘ اپنی خوشیوں کو اپنی سوچ کی وجہ سے خود سے دور کر دیتے ہیں ـ اپنے حال میں جینا خوش ہونا اور اپنے رب کا شکر ادا کرنا بھول جاتے ہیں ـ ہم اگر اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیں، تو بھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتے ـ ہمیشہ عاجزی و انکساری اور شکرگزاری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا چاہیے تاکہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکیں ـ۔

زمانہ کو کوسنے اور لوگوں کو برا کہنے کی بجائے ہمیں اپنی سوچ پر کام کرنا چاہئیے اپنے لئے خود مواقع پیدا کرنے چاہیے نہ کہ انتظار میں رہیں کہ کوئی آئے گا اور ہماری قسمت بدل دے گا ـ کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہیں ‘ اللہ پر بھروسہ کر کے اپنا سفر مقابلہ کرتے ہوئے اپنے اور دوسروں کے لئے رستے ہموار کرتے چلے جاتے ہیں ـ جو لوگ دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور اپنی ذات سے خوشیوں کے رنگ بکھیرتے ہیں اللہ تعالی بھی ان کی مدد فرماتے ہیں اور راستے صاف کرتے ہیں غائب سے مدد فرماتے ہیں ـ سب سے بڑھ کر زندگی میں سکون عطا کرتے ہیں جو دولت اور بنک بیلنس سے حاصل نہیں ہوتا ـ جتنی ہماری سوچ اچھی’ مثبت اور صاف ستھری ہو گی اتنی ہی ہماری زندگی پرسکون ہو گی ـ لہٰذا خود کو بدلیں اپنی سوچ پر کام کریں۔ ـ

Advertisements
julia rana solicitors

ہم اپنی مثبت سوچ اور اعلی منصوبہ بندی کے ذریعے وہ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے ـ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز یا کوئی بھی کام ناممکن نہیں صرف اچھی سوچ’ حکمت عملی’ مستقل مزاجی اور صبر کی ضرورت پڑتی ہے ـ ہر شخص کو اللہ تعالی نے خاص پیدا کیا اور ایک مقصد عطا کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی خصوصیات کو اپنی توانائیوں کو صحیح سمت میں لگاتے ہیں اس کے برعکس کچھ لوگ منفی سوچ اور عمل کی وجہ سے ناکامیوں کا سامنا کرتے ہیں اور آخر میں زمانہ کو قصور وار ٹھہراتے ہیں لہٰذا اپنے اوپر اور اپنی سوچ پر کام کرنا بہت ضروری ہے ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply