برطانیہ میں نسل پرستی کی سونامی۔۔آصف جیلانی

برطانیہ میں نسل پرستی نے جس تیزی سے پورے معاشرے کو جکڑ لیا ہے اسے سونامی قرار دینا غلط نہ ہوگا۔ اب تک نسل پرستی کی لہر سیاست کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھی لیکن اب اس نے مذہب کے رکھوالوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ملک میں سب سے بڑے مذہبی ادارے چرچ آف انگلینڈ میں نسلی تعلقات کی سابق مشیر ایلزبتھ ہنری نے اعتراف کیا ہے کہ اس ادارے میں نسل پرستی تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ایلزبتھ ہنری سات سال تک چرچ آف انگلینڈ میں نسلی تعلقات کی مشیر تھیں اور گزشتہ سال اپنے عہدے سے سبک دوش ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مذہبی ادارے میں نسل پرستی عام ہے اور سیاہ فام پادریوں کے ساتھ کھلم کھل تعصب برتا جاتا ہے۔ ایلزبتھ ہنری نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ چرچ آف انگلینڈ کے عملے کو نسل پرستی کے الزامات کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے کے لیے رقوم ادا کی جاتی ہیں۔ چرچ آف انگلینڈ کے سربراہوں کے لیے یہ بات پہلے ہی کافی پریشان کن ہے گرجا گھر جانے والوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک کمی ہو رہی ہے اور ان کی زندگی پر مذہب کا اثر ذایل ہوتا جا رہا ہے۔

برطانیہ میں نسل پرستی کا ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس کے ساتھ اسلام دشمنی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے حکمران ٹوری پارٹی میں صورت حال بے حد مخدوش ہے۔ ایک عرصہ پہلے یہ شکایت کی گئی تھی کہ ٹوری پارٹی میں بڑی تیزی سے اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے۔ اس کا انکشاف خود ٹوری پارٹی کی چیر پرسن سعیدہ وارثی نے کیا تھا جس کے بعد پارٹی کے سربراہوں نے بدنامی سے بچنے کے لیے اس مسئلہ پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے کا تہیہ کیا تھا۔ لیکن اسے کئی سال ہوگئے ہیں ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پارٹی میں اسلام سے نفرت کرنے والوں کی بڑی تعداد ہے جو اسلاموفوبیا کے خلاف اقدام کی راہ میں حائل ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ ان کے مضامین اور کالموں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی اسلام دشمنی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔

برطانیہ میں نسل پرستی کے ڈانڈے برطانیہ کی نوآبادیاتی تاریخ سے ملتے ہیں۔ افریقا اور ایشیا کی نو آبادیاتوں سے جب افریقی اور ایشیائی برطانیہ کے کارخانوں میں افرادی طاقت کا مسئلہ حل کرنے کے لیے لائے گئے تو رنگ و روپ اور زبان کا اختلاف نمایاں ہوا اور ان کے مفادات میں فرق بھی اجاگر ہوا۔ برطانیہ میں سیاہ فام افراد کی آبادی میں اضافہ سیاہ فام غلاموں کی تجارت کی بدولت ہوا۔ پہلی عالم گیر جنگ کے وقت برطانیہ میں سیاہ فام غلاموں کی تعداد پانچ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس کے بعد جب ہندوستان اور پاکستان سے بڑی تعداد میں تارکین وطن برطانیہ آئے تو نسل پرستوں نے افریقا اور ایشیا کے افراد کے درمیان کشیدگی بھڑکانی شروع کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت برطانیہ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی سے سب سے زیادہ پاکستانی اور ایشیائی متاثر ہو رہے ہیں اور ان پر روزگار کے مواقعے تنگ ہوتے جار رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ تارکین وطن اور مقامی لوگوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ سن ستر اور سن اسی کے دوران پاکستانیوں اور ایشیائیوں کو پاکی بیشنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس دوران لندن میں پاکستانیوں اور ایشیائیوں پر منظم حملے ہوتے تھے اور کئی سال تک لندن میں خاص طور پر پاکستانیوں کی زندگی عذاب بن گئی تھی۔ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس سے بھی پاکستانیوں کو کوئی مدد نہیں مل پائی کیونکہ اس میں بھی نسل پرستی کے الزامات عام تھے۔ ادھر مانچسٹر میں بھی پولیس میں نسل پرستی کی شکایت عام تھی۔ پچھلے دنوں اس انکشاف نے تہلکہ مچا دیا تھا کہ برطانیہ میں نسل پرستی کے مسئلے کے بارے میں دس ڈاوننگ اسٹریٹ نے ایک رپورٹ چھپا دی تھی۔ بہر حال رپورٹ تو پوشیدہ رکھی جا سکتی ہے لیکن نسل پرستی کی سونامی کو ہزار پردوں میںبھی نہیں چھپایا جا سکتا۔

Facebook Comments

آصف جیلانی
آصف جیلانی معروف صحافی ہیں۔ آپ لندن میں قیام پذیر ہیں اور روزنامہ جنگ اور بی بی سی سے وابستہ رہے۔ آپ "ساغر شیشے لعل و گہر" کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply