وہ دس دن۔۔۔حسیب حیات

مسلسل اِنکار پر اُس نے مُجھے میری محبت کا واسطہ دے ڈالا ۔اِس جذباتی حملے نے میری ناں ہاں میں بدل دی۔ وہ اُسے میرے حوالے کرتے ہوئے  بولا “تو نے  بس یہی سمجھنا کہ تو کِسی اور کو نہیں مُجھے اپنا مہمان رکھ رہا ہے ” ۔ میں نے نِسبتاًًً  چھوٹے ڈائیامیٹر کی دو عدد گالیوں سے  اُس کا مُنہ بند کیا۔ یہ میرا دوست جمیل تھا ۔اُس کا دیا ہوا واسطہ کِسی “جانو “کا نہیں بلکہ جانوروں سےمیری محبت کا تھا ۔وہ  چھوٹے ماموں  کی شادی پر دس دِن کے لئے ڈیرہ غازی خاں  جاتے ہوئے اپنا  ڈوڈو نامی کُتا  میرے حوالے کرگیا۔ میں نے ڈوڈو  سے   ہیلو ہائے کرتے ہوئے اُس کا تعارف ٹامی سے کروایا۔ ٹامی ، چِٹے سفید بالوں  والا  معصوم ،پیار ا سا ، ہمارا رشین کُتا۔ اپنی شے بھلے  ٹُٹے  پیڈل والی سائیکل ہی کیوں نہ ہو چنگی  لگتی  ہے  ،  ڈھلتی عمر والا ٹامی تو خیر ہم سب کا لاڈلا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری گلی والے اُسکی غُصیلی طبیعت سے اکثر نالاں رہتے تھے۔

ڈوڈو اور ٹامی کے دو چار گھنٹے ایک دوسرے سے چھیڑ خانی کرتے کھیلتے کودتے خوشگوارماحول میں گُزر گئے۔ مگر ڈوڈو کو پیار کرنے پر ٹامی کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ رات کے کھانے پر شیطان نے “پہلے میں ” کا ایسا گھٹیا وار کیا  کہ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ رہے ۔ڈوڈو اپنی جوانی  پر اِتراتااور قد کاٹھ کا گھمنڈ  کرتا ہوا ،پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھااور ہمارا ٹامی  حقوقِ ملکیت کِسی کو دینے پر راضی نہ تھا ۔ صُلح کی ہر کوشش ناکام  ہوئی باِلآخر ٹامی کو پِچھلے صحن مُنتقل کر کے فریقین میں حد بندی کرنی پڑی ۔”کُتا بڑی کُتی شے ہوتا ہے ” سیانو ں کی یہ بات میں نے سُن رکھی تھی۔ مگر اِس شے کی گہرائی ،چوڑائی ، حُجم  ،سب  کُچھ مُجھے ڈوڈو نے ایک ہی دِن میں سمجھا دیا۔جمیل نے درست کہا تھا کہ میں دس دِنوں کے لئے   اُسے ہی اپنا مہمان رکھ رہا ہوں۔ڈوڈوباِلُکل اُسی ساضِدی ، ہٹ دھرم اور بے ترتیبہ تھا ۔کِسی قائدے  قانون کو نہ ماننے والا۔  اُسے کھولنا مُشکل اور  باندھنا عذاب تھا۔نسل کا خالص ہونا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سُنانےکو تو جمیل ڈوڈو  کے ماتا پتا   دونوں کا شجرہ نصب سات پشتوں تک سُناتا تھا مگر وہ حقیقت نہیں فسانے تھے۔پہچان رکھنے والے سب سمجھتے تھے کہ ڈوڈو کی ماں کے ساتھ کوئی بے نسلا “کُتی حرکت “کر گیا تھا  اور ڈوڈو۔۔۔۔

ٹامی کو پِچھلے صحن تک محدود کر دیا گیا اورڈوڈو کو اگلے صحن میں باندھا جانے لگا۔ ہمارے گھر کے سامنے پارک تھا۔  صبح کے وقت اور شام کو ٹامی کو اُس پارک تک لانے کے لئے گھر میں دفہ “کُتالیس” لگانی پڑتی تھی ۔یعنی یہ بات یقینی بنائی جاتی تھی کہ  دونوں کِسی صورت میں بھی ایک دوسرے کا مُنہ نہ دیکھنے پائیں۔ بصورتِ دیگر  اگلے دِن ڈاکٹر  عبدلقدیر کو اپنے کلینک میں ایمرجنسی لگانی پڑجاتی ۔ڈاکٹر صاحب ہمارے عِلاقے کے مشہور ای این ٹی سپیشلسٹ تھے۔ڈاکٹر صاحب محلے میں” کناں آلا ڈاکٹر “کے نام سے جانے جاتے تھے”یہ پیارا سا  نام اِنسانی کانوں کے لئے  اُن کی گرانقدر خدمات کا  صِلہ نہیں تھا  بلکہ  اللہ کے عطا کردہ   ا ُن کے اپنے    ہاتھی نما  کان اِس  خِطاب کا سبب بنے تھے ۔

میں اُن دِنوں   سیکنڈ ایئر کا سٹوڈنٹ تھا۔ ہفتہ وار تعطیل جُمعے کو ہوتی تھی اور اُس ویک اینڈ پر کالج  کے دوستوں نے سینما میں رات کا شو  دیکھنے کا پروگرام بنایا۔  میرے دِل میں سینما درشن کی خواہش  کافی عرصے سے انگڑائیا ں لے رہی تھی، سو میں نے حامی بھرلی۔ اب مسئلہ گھر سے رات کو پھوٹنے کا تھا۔ کام بہت مُشکل تھا    اِک ذرا  سی  لغزش کچے پلستر کی طرح  کھال اُدھڑوا سکتی تھی۔ میں نے یہ رِسک لینے کا فیصلہ کیا۔چھوٹے بھائی کو دو سموسوں کا لالچ دیکر شریک جُرم کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ  اُن دوسموسوں میں سے ایک  پر میں نے ہی ہاتھ صاف کئے۔خیر  “بڑےبھائی کا بھتہ ” کی   یہ روائیت توچلی آرہی ہے۔ رات نو بجے چھوٹے بھائی نے  سرکاری  کاغذوں میں  میری نیند پر دستخط کئے ، مہر لگائی اور سیل بند لفافہ  دروازے پر لٹکا  چھوڑا ۔ سبزی منڈی میں واقع بابر سینما ، میری پہلی سینما گردی ، مزید یہ کہ ہر دس مِنٹ بعد  ناچتے گاتے شان اور ریما ۔ بس یہی تھا میرے اُس ایڈونچر کا کُل حاصل ۔واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ کِتنے اچھے ہوتے ہیں وہ بچے جو بڑوں کی باتوں کو پلے باندھ لیتے ہیں خود سے تجربہ کر کے خوار نہیں ہوتے۔

لوٹ کے یہ بُدھو جب گلی کے نُکڑ پر پہنچا تو رات کے دو بج چُکے تھے۔ غالباً نومبر کا تیسرا   ہفتہ تھا۔ ہولے ہولے  سے چلتی ٹھنڈی ہوا موسم کو اچھا خاصاسرد کئے ہوئے تھی۔ رات  تو جیسے کالےسمند ر میں ڈوبی ہوئی ہو۔اِس فِلمی مِشن کا آخری مرحلہ سر پر آن پہنچا تھا۔اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی مُجھے مین گیٹ پر ڈوڈو کی موجودگی کا احساس ہوا۔ میں  پوری گلی کو فِلم کی کہانی سُنانے کا رِسک نہیں لے سکتا تھا لہذا میں اُلٹے قدموں واپس ہوا۔اب میرے پاس  پِچھلی گلی سے گھر پہنچنے کے سِوا اور کوئی  راستہ نہیں تھا۔ شام کے بعد اِس پتلی گلی میں تو جن بھوتوں کی محفل سجتی تھی ۔ اُس اندھیری رات  تو ایسے لگ رہا تھا   جیسے گلی میں چڑیلیں  بال بکھیرے لیٹی پڑی ہوں۔ بس ایک  غلط قدم پڑا اور بندہ چڑیل کے مُنہ میں۔ اب چڑیل کا مُنہ ہو یابِنا ڈھکن کے گٹر نتیجہ تو ایک ہی سا  ہوتا ہے۔ خیراللہ اللہ کر تا میں اپنے گھر تک پہنچ گیا۔ ٹامی کو آہستہ سے آواز دیکر اپنی موجودگی کا یقین دلایا۔ کُتا بھی اِنسان کی طرح بڑا جذباتی جانور ہے۔ اچانک سے  مِلی خوشخبر ی  پر بندے کی آنکھ کا پانی کنڈے کنارے توڑ کر بہنے لگتا ہے  اور کُتے کی زبان لگام   چھُڑا  ئے دوڑپڑتی ہے ۔ٹامی نے مُجھ پر احسان یہ کیا کہ اُس نے اُچھلتے کودتے ، بھونکتے ہوئے اپنا  والیم کم رکھا ۔ میں سالم کھال اور  ہڈیوں سمیت اپنے  کمرے  میں پہنچ گیااور میر ا یہ فِلمی سفر ختم ہوا۔

مُجھے رات سوتے سوتے چار بج گئے اور صُبح چھے ساڑھے چھ بجے  چھوٹے بھائی نے ڈوڈوکی سیرکا مضمون مُجھے سنانا شُروع کر دیا۔ میں سخت نیند میں تھا۔ میں نے چھوٹے بھائی کو صلواتیں سُناتے ہوئے یہ ڈیوٹی اس کے سُپرد  کر دی ۔میں تکیے کے سٹیشن سے نیند کے سگنل  لئے خواب کی ٹرانسمشن سے  مُنقطع ہوا رابطہ ابھی بحال کر نہ پایا  تھا  کہ چھوٹے بھائی  نے پھِر سے  مُجھے جھنجوڑتے ہوئے اُٹھایا”وہ  ۔ ۔وہ ڈوڈو قابو میں۔۔۔” اُس کی بات مُکمل نہ ہونے پائی تھی کہ ٹامی کی چیخنے کی آوازیں ۔۔۔۔ ہم سب گھر والے پِچھلے صحن کی طرف بھاگے۔ ڈوڈو نے ٹامی کو نیچے گِرارکھا تھا اور اپنے دانت اُس کی گردن میں گاڑ رکھے تھے۔وہ منظر اِنتہائی خوفناک تھا۔ بڑی مشکل سے ٹامی کو ظالم کے نرغے سے چھُڑوایا گیا۔اُس کی گردن کے سفید چمکتے بال لال ہوچُکے تھے ۔میں اور والد صاحب  زخمی ٹامی کو  فوراً سے انکل اصغر کے گھر لے گئے ۔ انکل والد صاحب کے بچپن کےدوست اور ویٹنری ڈاکٹر   ،اُن کے گھر تک پہنچنے میں مُشکل سے پندرہ منٹ لگتے تھے۔ ٹامی خطرے سے باہر تھا ۔گردن میں دو تین زخم  تھے   مگرزیادہ گہرے نہ تھے ۔ٹامی کی  مرہم پٹی کرا کے کوئی گھنٹے بعد ہم واپس گھرلوٹے تو سب گھر والوں نے سُکھ کا سانس لیا ۔تمام بزگانِ فیملی نے باری باری میری خوب”خاطر ” کی۔ایک  کمینے کُتے نے میرے گھر میں وہ   کُتے والی کروائی کہ بس  ۔وہ میرے سامنے ہوتا  تو میں اُسےگولی ماردیتا۔اِس  چار ٹانگوں والے بھگیاڑ نما کُتے کو نہیں بلکے دو ٹانگوں والے اُس گدھے کو جو پِچھلے سات دِنوں  سے شادیاں “چر” رہا تھا۔

بیچارہ زخمی ٹامی تو  خیر اُس دِن کے ںعد ایک ہارے ہوئے فوجی کی طرح  سر جھُکائے  ایک کونے میں ہی بیٹھا رہتا، مگر  ڈوڈو  کے مزاج میں بھی بہت تبدیلی آگئی ۔ اُس نے خوامخواہ کی اکڑ اور اڑب پن کی روش ترک کر دی۔ اِسی طرح اگلے دو دِن بھی گُزر گئے ۔ جمیل جب  ڈوڈو کو لینے آیا تو ڈوڈو اُسے ایسا چِمٹا جیسے دس دن نہیں بلکے سالوں بعد اپنے مالک کی شکل دیکھ رہا ہو۔جمیل کو ڈوڈو کی کرتوت کا عِلم ہوا تو بیچارہ بہت شرمندہ ہوا۔ ڈوڈو کو اُس نے ٹھیک ٹھاک ڈانٹ پلائی۔ جمیل جب جانے لگا تو میں نے  ڈوڈو کو پیار کیا مگر اُس نے اپنا سر اوپر نہیں اُٹھایا۔  مین گیٹ سے باہر نِکلتے ہوئے  ڈوڈو  نے گردن گھُما   صحن کے ایک کونے میں  اپنے پنجوں کے درمیان زمین پر  سر رکھ کر لیٹے ٹامی کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو “ہوسکے تو مُجھے معاف کردینا”

مُجھے آج بھی وہ دس دن یاد آتے ہیں تو سوچتا ہوں  اپنی غلطیوں سے، بہتر کل کے لئے جانور بھی جینا سیکھ جاتا ہے ۔  مگر  انا کےسخت خول میں بُغض و عناد کی کنکریاں جمع کئے بیٹھا اِنسان انہی نفرت  کی کنکریوں کے اثاثے کو سینے سے لگائے اپنی ساری زِندگی بِتا دیتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

سچ کہ گئے ہیں با با  بُلھے شاہ” بازی لے گئے کتے۔۔

Facebook Comments

حسیب حیات
ایک پرائیویٹ بنک میں ملازم ہوں اسلام آباد میں رہائش رکھے ہوئے ہوں اور قلم اُٹھانے پر شوق کھینچ لاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply