منٹو کو کبھی بھی گھر لے کر نہیں جا نا۔جنید عاصم

فرسٹ ائیر کی انگریزی کی بک تھری پڑھانے والے استاد نے “ہیٹ لائٹننگ” ڈرامے میں نیا ٹویسٹ یہ دیا کہ ڈرامے کو تھیٹر کرنے کے انداز میں پڑھانا شروع کر دیا۔ یہ بالکل نیا تھا جیسے ہم ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ بورڈنگ سکول میں یہ سب سے دلچسپ پیریڈ ہوتا تھا اور ہم جو خالی سڑک کو دیکھنے کے لئے ترستے تھے، یورپ کے ایک بس سٹاپ کو دیکھنے لگتے۔ اب اس میں جذبات بھی شامل ہونے لگے۔ ان کی تشریح ماحول بنا دیتی تھی جبکہ باقی سارا دن ہمیں صرف پڑھنے یا کھانے اور سونے کا انتظار کرنے میں گزارنا پڑتا تھا۔ اس تشریح میں بالی ووڈ فلموں کے سین سے لے کر خوبصورت لڑکوں کی طرف ہمارے رحجانات بھی شامل کیے جاتے۔ ظاہر ہے بورڈنگ سکولز کے طلبا میں جنس مخالف کی طرف جنسی رحجانات تقریباً نا ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

اگر چہ اس طرف دھیان نہیں دیا گیا، مگر بورڈنگ سکول پہ شاہکار ناول اور فلمیں بنائی جا سکتی ہیں۔ انہیں “کمنگ آف ایج” نامی جینر سے پکارا جاتا ہے۔ جیسے بالی وڈ میں “اڑان” اسی تناظر میں بنائی گئی تھی یا ماریو ورگاس لوسا کا بہترین ناول ” دی ٹائم آف دا ہیرو”
“ہیٹ لائٹننگ” کے بعد والے اسباق بورنگ تھے، جیسے کسی کا مرکزی خیال سیپیوں کی کلیکشن تھا تو کسی میں فصلی سنڈیوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ بہرحال ہمارا ان سے کچھ واسطہ نہیں تھا۔

انہی دنوں دسمبر کے اشعار، ہجر و فراق کی یادداشتیں یاسیت بھرے انداز میں دہرائی جاتیں، جن کا ذخیرہ کلاس کے ایک شاعر قسم کا رجسٹر ہوتا، جو کلاس کے سب لڑکوں کو زبانی یاد ایک ایک اشعار کو اکٹھا کر کے محفوظ کیا گیا تھا اور یہ رجسٹر سب لڑکوں کا یکساں مرثیہ تھا۔ کسی کی بھی کتاب گم ہو جائے، نوٹس اٹھا لیے جائیں، دیوان کو کوئی گزند نہیں پہنچنی چاہیے۔

پھر اسی استاد نے دسمبر کے ایک دن ناصر کاظمی کا یہ شعر کیا سنایا پورے اسکول میں وائرل ہو گیا

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

تب ہمیں “وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے” والے ناصر کاظمی کا دوسرا رخ معلوم ہوا، وہ بھی اس زمانے میں جب ہر شعر مقطع ہوتا تھا، جس کے اندر مرحوم فراز تخلص کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے ہی ایک دن انہوں نے ہم سے منٹو کے بارے پوچھا۔ جس کا جواب منٹو پارک کی مناسبت سے کسی گورے کے نام سے دیا گیا۔ استاد صاحب کے ایکسپریشنز منفی اور جیت کے جذبات سے بھرپور تھے۔
انہوں نے منٹو کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور پوچھا کہ وہ ہمارے نصاب میں کیوں نہیں۔
کیوں نہیں! ہم نے مغلوبانہ انداز میں جواب دیا۔ جس کے بعد انہوں نے “کھول دو” کا خلاصہ سنایا، “کالی شلوار”، “ٹھنڈا گوشت” اور چند ایک دیگر کا۔ اس سے اگلے دن وہ ایک کتاب لائے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو باقاعدہ پڑھا گیا۔ تب تک ہم غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی کے سحر سے تھوڑا تھوڑا نکلنے لگے تھے۔
باہر نکلنے سے پہلے انہوں نے کہا ” منٹو کو پڑھنا لیکن کبھی گھر لے کر نہیں جانا”!

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply