پریشان نہیں ہونا ہم آ گئے ہیں ۔۔۔ نسرین چیمہ

آزادی سے غلامی کا یہ سفر زیادہ طویل نہیں ۔ تین سال ہونے کو ہیں۔ تمام جھوٹے وعدوں پر پانی پھر چکا ہے۔ ناامیدیاں ہمارے ارد گرد منڈلا رہی ہیں۔
یہ پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے آتے ہی ہمیں تسلی دی کہ گھبرانا نہیں ہے پریشان نہیں ہونا۔
ہمارے لیڈر کو یہ احساس تھا کہ قوم کو کون سے مصائب کو سامنا کرنا ہے۔ معصوم عوام امیدیں لگائے بیٹھ گئے۔ ایک وہ سفر تھا جو غلامی سے آزادی کی طرف تھا جو مسلمانوں نے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کی تھی۔ اور آج جس سفر پہ ہم گامزن ہیں وہ آزادی سے غلامی کی طرف ہے۔
مدینہ کی ریاست بنانے والوں کو قادیانیوں اور اسرائیلیوں کا سہارا چاہئیے۔ تاکہ مسلمانوں کے سر سے سائبان اور پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جائے۔ہمارا مقدر ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے جو مسلمانوں کی عزت و ناموس کے دشمن اور اسلام کی جڑیں کاٹنے والے ہیں ۔ ہم قادیانیوں اور اسرائیلیوں کی سب برائیاں اپنے اندر سمیٹ کر مدینہ کی ریاست کا ڈھونگ رچانا چاہتے ہیں۔
قوم بھوک سے مر رہی ہے ۔ جان ، مال ، عزت کا کوئی پاسبان نہیں ۔ مہنگائی نے زندگی کی تمام آسائشیں چھین لی ہیں ۔ چہروں پہ سجی امید کی کرنیں حسرتوں کی نظر ہو گئی ہیں۔ جھوٹے دعوے حکمرانوں کی اصلیت کو عیاں کر چکے ہیں۔ جھوٹ، چوری، بدکاری زوروں پہ ہے۔ ظلم و ستم کی چکی چل رہی ہے۔ ہم معاشرتی ، سماجی برائیوں پر قابو نہیں پانا چاہتے۔ ہماری حکومتوں کا مقصد غنڈہ گردی، غاصبوں ، ڈکیتوں سے تحفظ دینا نہیں ، کفر کے غلبے اور غلامی سے جان چھڑانا نہیں اور نہ ہی ملک کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہمارا مقصد ہے ۔ بلکہ ہم تو غیروں کے قدم مضبوط کر رہے ہیں اور اپنی ہی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ۔
ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو قوم کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرا دیتی ہے ۔ ہمارے حکمران اپنی طاقت کے بل بوتے پر پچھلے حکمرانوں کو موت کی نیند سلا دینا چاہتے ہیں ۔ اس سارے پروپیگنڈے میں عوام پس رہی ہے ۔ موجودہ حکمرانوں کے نرالے انداز تو ابھی سے بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
قوم کی بہتری کے لیے کیا سوچا ہے ؟ کونسے ایسے کارنامے سر انجام دئے ہیں۔ جنہیں آنے والی نسلیں۔ سنہری حروف میں لکھ سکیں ۔
طاقت کے زور پر سرکاری اور غیر سرکاری سیٹوں پر قابض ہونے والے قوم کی قسمت سے کھیل رہے ہیں ۔ حاکم وقت کہہ رہا ہے گھبرانا نہیں ہے۔ ہم کیوں گھبرائیں گے ،گھبرانے کا وقت تو ختم ہو گیا ہے ۔ اب تو قیامت کے ٹوٹنے کا انتظار ہے ۔ اب پاؤں کی زنجیریں اور زبان کے قفل توڑنے کا وقت آ گیا ہے۔
جب قوم بلک رہی ہو، جان، مال، عزت محفوظ نہ ہو ، بدعنوانیاں عروج پر ہوں ، زندگی موت کی چوکھٹ پر پہنچ کر دستک دے رہی ہو، جب درندوں نے قیامت برپا کر دی ہو ، قوم کے سورماوں نے تہلکہ مچا دیا ہو ۔ انصاف کئ کرسی بےبسوں کا تماشا دیکھ رہی ہو۔ ظالم اور حاکم ایک ہی پلڑے پر چڑھ جائیں تو جھوٹی تسلیاں ہمارے آنگن کو نہیں بچا سکتیں ۔
گھبراہٹ کے چھوٹے سے لفظ نے آغاز اقتدار میں ہی جھوٹے وعدوں کے بوجھ تلے دم توڑ دیا تھا ۔
زندگی میں آسانیاں تلاش کرتے کرتے پریشانیوں اور پشیمانیوں نے دبوچ لیا ۔ظالم ،قاتل و غاصب ، درندے راج کر رہے ہیں ۔نے گناہوں سے جیلیں بھر گئی ہیں ۔ جب جرم ثابت ہو جاتا ہے تو چند دن کی کاروائی کے بعد انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ہم نے اپنی آزادی پہ حرف نہیں آنے دیا۔
قانون بنانے والے آزاد ہیں ۔ عدلیہ آزاد ہے جو انصاف کی نہیں حکمرانوں کے حکم کی پابند ہے ۔ملک کا انتطام چلانے والے بھی آزاد ہیں کہ وہ قوم کے خون سے اپنی پیاس بجھا لیں ۔ ہم شائد مطمئن ہو جاتے اگر کہیں سے کوئی روشنی کی کرن نظر آ جاتی مگر یہاں تو صرف مایوسی ہے ۔ کاروبار زندگی بند، پراجیکٹ بند، نوکریوں اور مزدوریوں سے فارغ ہونے والوں کی بھوک اور افلاس نے کمر توڑ دی ہے ۔
مگر ہم آزادی کی نعمت سے محروم نہین ہوئے۔
ہماری آزادی کا مفہوم عیاشی، فحاشی، اور ظلم تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ آزادی میں ہم آج صف اوّل کے ممالک میں کھڑے ہیں ۔
ہمارا سر سربلند ہے کیونکہ ہم معاشرتی اور سماجی برائیوں میں مغرب کے مدمقابل ہیں بلکہ ان سے کہیں آگے نکل گئے ہیں ۔
مگر یہ بات ذہن نشین رہے
کہ پریشان نہین ہونا ، گھبرانا نہیں ہے کیونکہ ہم ریاست مدینہ بنانے جا رہے ہیں ۔

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply