پختونوں کی مہمان نوازی

یہ تو ہمیشہ سے سن رکھا تھا کہ پختون بہت مہمان نواز ہوتے ہیں تاہم اس کا عملی تجربہ اس وقت ہوا جب ہم رب نواز خان عرف نِکو کے ساتھ اس کے گاؤں اسوٹہ شریف ضلع صوابی گئے۔ اسوٹہ شریف شوے اڈہ سے دو اڑھائی کلو میٹر کی مسافت پہ ہے۔ نَکو کے چچا محمود خان علاقے کی معزز شخصیت ہیں اور اپنے گاؤں کے ملک ( چودھری) بھی۔ ہمارا قیام ان کے حجرے میں ہوا اور میں اس وقت حیران رہ گیا جب ہمیں اپنے جوتے تک بھی خود نہ اتارنے دئیے گئے۔ ہمیں چارپائی پر بٹھا دیا گیا، نیم گرم پانی لایا گیا اور ہمارے جوتے اور موزے اتارے گئے اور ہمارے پاؤں دھلائے گئے۔

نِکو کے سبھی کزن حجرے میں آ گئے اور ہماری خیریت دریافت کرنے لگے۔ اگرچہ انھیں اردو نہیں آتی تھی پھر بھی وہ ہم سے خوش گپیاں کر کے خوش ہوتے جبکہ نِکو مترجم کے فرائض سر انجام دیتا۔ ان دنوں وہاں ہوائی فائرنگ پہ پابندی تھی اور جرگے کی جانب سے ایسی کسی حرکت پر بھاری جرمانہ عاید تھا مگر ہمیں بہت شوق تھا اس لئے ہماری خواہش کا احترام کیا گیا، آخر کو ہم ان کے مہمان تھے۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ہمارا ایک ہفتہ وہاں قیام رہا اور ایک گھر سے ہمیں دو بار کھانے کا موقع نہیں ملا۔ دعوتوں کا ایک طویل سلسلہ نِکو کے دوستوں اور رشتہ داروں کی جانب سے تھا۔ ناشتہ کسی ایک کے گھر تو دوپہر کا کھانا کسی دوسرے کے گھر اور رات کو ہم کسی نئے میزبان کے مہمان ٹھہرتے۔ دعوتوں میں ایک چیز مشترک تھی کہ سرسوں کا ساگ اور مکئ کی روٹی ساتھ میں لازم ہوتی ( ان دنوں سرسوں کا موسم تھا) اور نِکو کی ہدایت پر ہمیں چار و نا چار چند لقمے لینے ہی پڑتے ورنہ وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ مہمان کو کھانا پسند نہیں آیا۔ پھر باقی ضیافت کا بے شک دل بھر کرمزا لوٹیں۔

شام کو ہر روز چترالی ستار گھڑا بجانے والے آ جاتے اور ہماری تفریح کے لئے پشتو ٹپے گائے جاتے۔ جب تک ہم محفل برخاست نہ کرتے۔ سبھی وہاں موجود رہتے۔ چونکہ وہاں چرس عام ہے اور کثرت سے پی جاتی ہے تو ماحول چرس کے دھویں سے دھواں آلود نہیں بلکہ چرس آلود ہو جاتا اور ہم مفت میں بن پیے ہی لہرا رہے ہوتے۔ خیر اسوٹہ شریف اور محمود آباد کی سیر ہماری حسین یادوں کا حصہ ہے کیونکہ وہاں جاتے ہوئے ہم نے ایک سفری چشمی عشق بھی کیا تھا۔ وہاں گاؤں کے قریب سے ہی ایک ندی گزرتی ہے جہاں ہم نے غسل اس حال میں کیا، جس حال میں پیدا ہوئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محمود خان کے جواں سال بیٹے زبیر سے بھی ہماری اچھی دوستی ہو گئی تھی جسے اس وقت اردو کا ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا اور وہ ہماری باتیں سن سن کر ہنستا رہتا تھا۔ نجانے اسے ان باتوں میں لطیفہ صفت الفاظ ملتے تھے یا پھر اردو بولتے ہوئے ہماری شکلیں ایسی بنتی تھیں کہ اسے ہنسی آتی تھی۔ اب زبیر دبئی میں ہے اور بہت سیٹ ہے. دعوتوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہا اور ہمارے واپس جانے کا دن آ گیا اس دن تو نِکو کے رشتہ داروں نے منتوں کی حد ہی کر دی کہ مت جاؤ اور ناراضگی کا اظہار کرنے لگے کہ آپ نے ہمارے گھر کھانا نہیں کھایا بڑی مشکل سے مترجم نِکو کے ذریعے انھیں سمجھایا کہ بھائی ہم دو دن کے لئے آئے تھے، ہفتہ ہو چلا ہے، ہمارے والدین پریشان ہوں گے۔ حال یہ تھا کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ بڑی مشکل سے پختون مہمان نوازی سے اجازت لی جو ہمیشہ میری یاداشت کا حصہ رہے گی۔

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply