حقوق نسواں اور پاکستان ۔۔۔۔ غزالہ اشرف

پاکستان میں حقوق نسواں کو جتنا نقصان خود حقوق نسواں کی تنظیموں نے پہنچایا ہے، اتنا نقصان اور کسی نے بھی نہیں پہنچایا۔ میری بات پر حیران نہ ہوں بلکہ غور کریں ، ایک مدت سے پاکستان بھر میں حقوق نسواں کے تحفظ سے مختلف تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن نہایت دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے اکثر کو ایسے خواتین و حضرات کنٹرول کرتے ہیں جو شدید مغرب زدہ ہیں۔ ان کے ذہنوں پہ مغربی اقدار بری طرح سے اثر انداز ہیں اور نتیجے کے طور پہ وہ بھی یورپ کے مادر پدر آزاد اور شرم و حیا سے ماورا معاشرے کے نمائندے  سمجھے جانے لگے ہیں۔

ان تمام این جی اوز کے فلاپ یونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اپنی مشرقی روایات و اقدار بھی ہیں۔ مشرق میں ویسے بھی شرم و حیا عورت کا زیور سمجھا اور مانا جاتا ہے اور اسلام نے تو حیا کا کو دین کا بنیادی جزو قرار دیا ہے۔ ایسے میں جب عورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والوں کی پہچان ہی شروم و حیا سے عاری لوگوں والی بن چکی ہو تو اس معاشرے میں کون چاہے گا کہ اس کی بہین بیٹی ایسی کسی تحریک کا حصہ بنے؟ مرد تو رہے ایک طرف، کوئی عورت بھی ہرگز ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ اس کی یا اس کی بہین بیٹی کی پہچان یورپ کی عورت جیسی بنے۔  اسی وجہ سے سوائے شدید مغرب زدہ افراد کے نہ تو کوئی مرد انکو پسند کرتا ہے اور نہ ہی کوئی عورت ـ

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری عورت کا بہت زیادہ استحصال کیا جاتا ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عورت اپنے بنیادی حقوق اور بنیادی آزادی چاہتی ہے تاہم اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہماری عورت اپنی روایات، اقدار اوراسلام سے ہی ازادی چاہتی ہے۔ ہماری عورت عزت چاہتی ہے، ہماری عورت تحفظ چاہتی ہے، ہماری عورت لکھنے پڑھنے کی آزادی چاہتی ہے ، ہماری عورت معاشی خوشحالی چاہتی ہے۔ ہماری عورت صرف اور صرف وہی آزادی چاہتی ہے اور وہی حقوق چاہتی ہے جو اس کو اسلام نے اور ملک کے آئین نےدیئے ہیں اور یہ سب چاہتے ہوئے وہ اپنی پہچان بھی ایک مشرقی ماں مشرقی بہن اور مشرقی بیٹی والی ہی چاہتی ہے وہ چاہتی ہےکہ اسے شرم و حیا کا پیکر بھی تسلیم کیاجائے، اسے ذہین و فطین بھی تسلیم کیا جائے۔ اسے اس کی وہی اہمیت دی جائے جو اس کے لئے مالک دو جہاں نے خاص کی ہےـ

اس لئے ان تمام این جی اوز اور ان تمام اداروں کو جو خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں یاکر رہے ہیں ، اپنی پہچان بدلنی ہوگی اور خواتین اور ان کے سرپرستوں کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہ خواتیں کو شرم وحیا سے آزاد کرنے یا اپنی اخلاقی اقدار سے آزاد کرانے نہیں نکلے ہیں بلکہ خواتیں کے استحصال جیسے عوامل کو روکنے اور ان کو انکا حقیقی مقام دلانے کے لئے تحریک چلا رہے ہیں ـ بصورت دیگر ہمیشہ کی ناکامیاں ہی انکا مقدر ٹھہریں گی.

Advertisements
julia rana solicitors london

 غزالہ اشرف سیاست میں فعال ہیں اور مسلم لیگ ن ضلع ہٹیاں بالا، آزاد کشمیر میں مسلم لیگ خواتین ونگ کی صدر ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply