میں ماں جی مرحومہ مغفورہ کی خدمت نہ کرسکا۔۔غیور شاہ ترمذی

لوگ آج ماں کا دن منا رہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ
ماؤں کے کوئی دن نہیں ہوتے
بلکہ
ماؤں سے ہی دن ہوتے ہیں
اور
ہر دن ماں کا دن ہے
سنہ 2010ء , 12 نومبر کو رات 10 بج کر 2 منٹ پر ماں جی مرحومہ و مغفورہ نے دنیا کو خیر آباد کہا۔ تب میں ہسپتال میں ان کے یاس ہی تھا اور ڈاکٹروں سے بات چیت کے بعد ذہنی طور پر ان کی موت کے لئے تیار ہو چکا تھا۔ درحقیقت ماں جی مرحومہ و مغفورہ کے بہت سے رشتہ دار، اہلیان محلہ اور دوسرے عزیز و اقارب بھی وہاں موجود تھے۔ زندگی میں لوگ جیسے ماں جی کے آس پاس رہتے تھے، ان کے دم رخصت بھی ایک جم غفیر ہسپتال میں تھا۔ 25 اکتوبر سے لے کر 28 اکتوبر تک ماں جی ہسپتال میں تھیں مگر ان کو سوائے بخار کے کوئی تکلیف نہیں تھی مگر 28 اکتوبر کی رات کو انہیں دل کا شدید دورہ پڑا, جس کی وجہ سے وہ کومہ میں چلی گئیں اور ڈاکٹروں کی تمام کوششوں اور ہماری بہت سی دعاؤں کے باوجود بھی وہ دنیا سے منہ موڑ گئیں۔

میرا خیال ہے کہ میں نے شاید ہی اپنی ماں کی خدمت کی ہو گی، وقت ہی نہیں ملا، پہلے پہل لڑکپن اور اوائل نوجوانی کی دلچسپیوں نے ماں کی خدمت کی طرف توجہ نہ کرنے دی۔ پھر نوجوانی سے جوانی تک طلبہ سیاست اور مار دھاڑ پروگراموں نے گھر رہنے اور ماں جی کی خدمت کا حق نہ ادا کرنے دیا۔
لیکن
وہ بہت فراغ دل تھیں۔ بستر مرگ پر جب بار بار میں اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کر رہا تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ “میں راضی ہوں بیٹا، کیوں بار بار معافی مانگتے ہو، اپنے چھوٹے بھائیوں کا خیال رکھنا”۔ ماں جی نے میرے سامنے دم توڑا لیکن میں سب کے سامنے زیادہ نہیں رویا ۔. مگر اب جب بھی سر بھاری ہونے لگتا ہے تو فردوسیہ قبرستان چلا جاتا ہوں اور ماں جی کی قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر روتا ہوں۔

مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی

ماں سے بچھڑے 10 سال سے زیادہ مدت ہوگئی۔ شروع میں جب بھی ماں جی والے گھر جاتا تو کبھی یقین بھی نہیں آتا تھا کہ ماں جی وہاں نہیں ہیں۔ ماں جی کے بعد ایک بھائی کے لالچ اور پیسوں کی ہوس کی وجہ سے گھر بھی بکھر گیا۔ تلخیاں زیادہ نہ بڑھیں، اسی لئے سنہ 2012ء میں دوسرے شہر منتقل ہو گیا۔ پچھلے 4 سال سے واپس لاہور ہی ہوں مگر ماں جی والے گھر میں نہیں رہتا۔ اب کبھی وہاں جاؤں تو اسی بھائی کی وجہ سے پیدا ہونے والی وہاں کے ماحول کی شدید پراگندگی کے بعد یقین ہو چکا ہے کہ ماں جی شاید  کبھی اس گھر میں تھیں  بھی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماں جی کی یاد آتی ہے تو اب ماں جی کے گھر نہیں جاتا بلکہ فردوسیہ قبرستان جاتا ہوں۔ وہاں اور بھی کئی عزیز مدفون ہیں۔ ماں جیسی خالائیں، بھائیوں جیسے کزن اور دوسرے رشتے دار۔ مگر سچ یہی ہے کہ ماں جی کی قبر پر پہنچتا ہوں تو خوب روتا ہوں اور پھر یوں سکون ملتا ہے کہ جیسے مدتوں بعد پھر ایک بار ماں جی کی گود میں پہنچ گیا ہوں۔ وہی سکون جو ماں جی کی گود میں سر رکھ کر لیٹنے میں آتا تھا۔ وہی اپنائیت، وہی محبت۔ ماں جی کی قبر پر ہر  بار منہ پھاڑ کر نہیں بلکہ دھاڑیں مار مار کر روتا ہوں۔
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ°
ترجمہ:
اور ان کے لئے عاجزی کا بازو بچھا, نرم دلی سے اور اے میرے رب تو ان پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے چھوٹی عمر میں پالا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply