سب کو ہراس نا کیجیے۔ سمانی ابڑو

میں اگر کسی اچھے ادارے میں نوکری کرنے جاتی ہوں. تو پہلے دن مجھے ہیومن ریسورسز کے دفتر جاکے اپنے کوائف درج کروانے ہوتے ہیں. جس میں مجھے اپنی اور گھر والوں (والدین) کی تفصیل دینا ہوتی ہے. ہر ادارے میں یہ تفصیل مختلف نوعیت سے مختلف وجوہات کی بناء پہ اکٹھی کی جاتی ہے.

اگر ہیومن ریسورسز منیجر میری ذاتی معلومات سے میرا موبائل نمبر یا ای میل آئی ڈی اٹھا کے اس سے میرے فیس بک تک پہنچتا ہے تو وہ ادارے کی confidentiality کے اصول کو break کرتا ہے. اس صورتحال میں میرا پہلا قدم اپنے سپروائزر کو اور پھر اس کے بعد اپنے ادارے کے head کو رپورٹ کرنا ہے. اچھے ادارے اپنی پالیسیز میں اپنے متعین کیے اصول و ضوابط پہ چلتے ہیں. تاہم پاکستان میں بہت ادارے ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہیں.

ہمارے بہت ساتھی اور دوست مجھے شرمین عبید کے واقعے کے متعلق مختلف تحریروں پہ ٹیگ کر رہے ہیں. مختلف جگہوں پہ لکھنے سے بہتر میں نے یہ سمجھا کہ میں بھی اپنا نقطہ نظر ایک طرح سے واضح کردوں.
آغا خان کے ادارے نے پاکستان میں بہت عزت کمائی ہے. ایک طرح سے ہم وہاں اس لئے جاتے ہیں یا ان پہ اس لئے بھروسہ کرتے ہیں کہ صحت کے میدان میں ابھی پاکستان کے زیادہ تر پبلک ادارے عام عوام کو وہ services یا بھروسہ نہیں دے سکے ہیں.

آغا خان ہسپتال نے جو کیا وہ ان کا پرنسپل موو یا اصول کی بنیاد پہ کیا گیا فیصلہ ہے. لیکن مجھے شرمین کے اس اشو کو اٹھانے کے طریقے سے اختلاف ہے. ان کی ٹویٹس میں ایک عجیب غرور جھلکتا ہے. ان کو الفاظ کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے تھی کیونکہ جو عزت اور مقام انہوں نے کمایا ہے وہ ان سے ذمہ داری کا متقاضی ہے. جب کہ انہوں نے ایک جھٹکے سے پورے ملک کو سنا کے رکھ دی ہیں جو میری نظر میں کسی بھی طرح انصاف نہیں.

میں پاکستان کے ایک بہت چھوٹے سے ٹاؤن سے تعلق رکھتی ہوں. آج جہاں میں کھڑی ہوں اس میں صرف میرا تو کوئی کمال نہیں. میرے والد، میرے بھائی، میرے خاندان کے اور مرد جیسے کزن یا چاچا، ماموں سب نے اسی معاشرے میں رہتے میرا ساتھ دیا ہے. میرے گاؤں کے بہت لوگ، خواتین اور مرد دونوں میری حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں. میری سندھ یونیورسٹی (جو کہ آج کل میڈیا میں harassment کی خبروں میں ہے) کے مرد اساتذہ جنہوں نے مجھے سکھایا، اور بنایا وہ بھی اسی پاکستان میں رہتے ہیں. میں نے جس شاندار ادارے میں 6 سال کام کیا وہاں میرے mentors یا مجھے سکھانے اور بنانے والے بھی زیادہ تر مرد حضرات ہی ہیں. اس کے علاوہ میں نے چلتے پھرتے اسی معاشرے میں بہت جگہ عورت ہونے کی privilege کو بھی enjoy کیا ہے.

آج پاکستان کا معاشرہ بہت سی فیلڈز میں crawling کر رہا ہے یا سیکھنے کے عمل میں ہے. انسانی حقوق کے ادارے اس بات پہ کام کر رہے ہیں کہ جب ریاست قانون بھی بنا لیتی ہے تو بھی معاشرے میں اس کے اطلاق میں ایسے کیا مسائل ہیں کہ وہ قانون بھی اثر انداز نہیں ہو پاتا اور عورتوں کے جملہ مسائل میں کمی نہیں آرہی یا ان کو با اختیار بنانے کا عمل ہنوز مشکلات کا شکار ہے.

میرے جامشورو میں جاب کرنے کے دوران( سیلاب2010)مجھے ایک اٹلی کے بندے کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا. میں آفس اسسٹنٹ تھی اور وہ ہیومن ریسورسز اور فنانس کا ہیڈ تھا. اس نے مجھے ایک بات سکھائی تھی کہ، میرے پاس “صرف مسئلہ” لے کہ مت آیا کرو. اس مسئلے کا اپنی سمجھ کے مطابق کچھ حل سوچو، اوران پہ آکے بات کرو، جو بہتر ہوگا اس حل کو عمل میں لانے میں مدد میں کروں گا.

Advertisements
julia rana solicitors london

بہت وقت بعد مجھے سمجھ آیا کہ اصل میں یہ empowerment یا با اختیار ہونے کا سبق تھا. ہمارا معاشرہ کسی بھی اور معاشرے کی طرح مختلف مسائل کا شکار ہے، لیکن ان مسائل کا حل کس طرح ممکن ہے، یہ سوچ ان کا حل تلاش کرے گی نہ کہ ایک واقعے پر پورے معاشرے کو الزام دینے کا عمل. جہاں آج شرمین کھڑی ہیں وہاں وہ پاکستان کی مدد اس سے کہیں بہتر طرح کرسکتی ہیں.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply