قلعہ بند نفرتیں۔۔اشفاق احمد

جب نفرتیں قلعہ بند ہو کر اپنی اپنی جگہوں پر انتہائیں بن جائیں تو درمیان کے کچھ لوگوں کی حاجت پڑ ہی جاتی ہے صاحب۔ نفرت ایک زہر کی مانند ہے اور زہر کی آسان سی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو وجود کا حصہ بن کر اسے شکست وریخت سے دوچار کردے۔ نفرت شعور کی خوابیدگی کا فائدہ اٹھا کر پہلے ذہن میں پنپتی ہے تاہم رحم، محبت اور ندامت کے جذبات اسے کھل کر کھیلنے نہیں دیتے۔ لیکن جب یہ ہماری کیمسٹری کے ذریعے وجود کا حصہ بنتی ہے تو قیامت ڈھا دیتی ہے۔ تب یہ اپنے خدوخال ہمارے عمل حتی کہ ہمارے چہروں کے نقوش تک میں ظاہر کر دیتی ہے۔ ہر وہ شخص جو درندگی کا ارتکاب کرتا ہے، جو سوچ سوچ کر بہتان تراشتا ہے، جو دانستہ زبان کی کاٹ سے لوگوں کے دل چھلنی کرتا ہے اور ندامت یا رحم کا اس میں شائبہ تک بھی ظاہر نہیں ہوتا تو جان لیجیے کہ نفرت کا زہر اس کے ذہن اور وجود دونوں میں سرایت کر چکا۔

حالت اب ایسی بن گئی  ہے کہ معاشرے کی اکثریت دو حصوں میں بٹ چکی۔ کچھ لوگ ہیں جو دانستہ نفرتیں پھیلا رہے ہیں اور اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ان نفرتوں کا شکار ہیں۔ جو نفرتوں کا شکار ہیں وہ ردعمل میں خود اپنے اندر ہی نفرت کا بیج بو رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان دو انتہاوں کے بیچ میں بھی کچھ لوگ ہیں صاحب۔ سدھار کا سارا کام انہی کے ذمہ ہے۔ یہ بھی شخصیتوں کے اعتبار سے دو طرح کے ہیں ایک وہ جو ردعمل میں نفرت کا پرچار کرنے والوں کو اپنی کمال ادا سے شانت کر دیتے ہیں۔ خود تہذیب و شائستگی کا نمونہ بن کر ان کے زخموں پر اپنے میٹھے بول کا مرہم رکھ دیتے ہیں اور انہیں پھر سے یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل تلخی نہیں اور نفرت تو بالکل بھی نہیں۔ دوسرے وہ جو نفرت کے بنیادی کردار بن جانے والوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قانون کے ذریعے، قلم کے ذریعے، سیاسی عمل کا حصہ بن کر یا کسی بھی دوسرے رستے۔ یہ دونوں طرح کے لوگ اب اس معاشرے کی ضرورت ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے آپس میں اگر اختلاف ہو تو اس میں بھی مزہ ہے اور اگر اتفاق ہو تو اس میں بھی مزہ۔ کیونکہ ان کا اختلاف اور اتفاق تعمیر سے، محبت سے اور خیر خواہی سے عبارت ہے۔ یہ جہاں جہاں بھی ہیں اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔ یہ سبھی کے ہیں اور سبھی کے لیے ہیں۔ یہ سبھی اداروں، سبھی حلقوں، سبھی تنظیموں، سبھی بازاروں اور سبھی علاقوں میں موجود ہیں۔ ان کی پہچان بھی کچھ مشکل نہیں۔ ہر وہ شخص انہی میں سے ہے جو نفرت اور تعصب کی کسوٹی پر نیتوں کی تشخیص نہ کرے، جو محبتوں کا داعی ہو، جو ظلم کے خلاف کوئی  پرواہ کیے بغیر ڈٹ جاۓ، جس کی زبان اور عمل سے کسی شریف انسان کو کچھ خطرہ لاحق نہ ہو اور جو گروہ بندی کی ترغیب کی بجاۓ اگلے کو اسی کی اپنی ہی جگہ اور اس کے اپنے ہی گروہ میں رہ کر نفرت کا تریاق بننے کی ترغیب دے۔ یہ سبھی ادائیں بھلے کسی ایک شخص میں موجود نہ ہوں لیکن ان میں سے کوئی  ایک ادا بھی اسے انہی جگنوؤں میں شمار کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایسے لوگ موجود ہیں صاحب معاشرہ ابھی ویسا بانجھ نہیں ہوا کہ جس کی کوکھ سے جگنو نہ نکلیں۔ بس ہمیں ان کو پہچاننا ہے، ان کا ساتھ دینا ہے اور ان جیسا بننا ہے تاکہ دیے سے دیا جلتا رہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply