• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مقدمہ گلگت بلتستان کا حل کیا ہے؟(2،آخری حصہ)۔۔اشفاق احمد ایڈووکیٹ

مقدمہ گلگت بلتستان کا حل کیا ہے؟(2،آخری حصہ)۔۔اشفاق احمد ایڈووکیٹ

چائنہ  پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک ) گلگت بلتستان سے گزر کر بلوچستان کی طرف جاتاہے جہاں گوادر پورٹ ہے  ، اور اس پورٹ سے چین اپنے برآمدات کو دنیا بھر کی منڈیوں تک پہنچائے گا
گوادر پورٹ سے دنیا بھر کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے چین اپنی اس تجارتی سفر کی شروعات گلگت بلتستان سے کرے گا۔

چنانچہ اس متنازع علاقے کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے سفارشات تیار کرنے کے لیے سرتاج عزیز کمیٹی مقرر کی تھی جس نے گلگت بلتستان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 258کے تحث ایک تحت صدارتی فرمان کے زریعے عبوری آئینی صوبہ بنانے کی سفارش کی، چونکہ مکمل صوبہ بنانے میں مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے اور گلگت بلتستان بھی مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔

1947سے قبل گلگت بلتستان پرنسیلی ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھا لیکن جموں و کشمیر پر پاکستان انڈیا کی پہلی جنگ 22اکتوبر 1947 کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر تین حصوں یعنی انڈیا کے زیر کنٹرول جموں کشمیر،اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں منقسم ہوگئی ۔

22اکتوبر کو جنگ کے شروعات میں جب سرحد کے قبائلی لشکروں نے ریاست جموں وکشمیر پر حملہ کیا تو مہا راجا ھری سنگھ نے انڈیا کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ کچھ شرائطِ کے ساتھ Instrument Of Accessionپر دستخط کر کے الحاق کیا ،اور قبائلی لشکروں کے مقابلے کے لیے جواہر لال نہررو نے اندیا کی افواج جموں و کشمیر میں اتار دی اور موجودہ انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دونوں حصوں میں جنگ شروع ہوئی۔لیکن ریاست جموں وکشمیر کے تیسرے حصے یعنی گلگت بلتستان میں بالکل امن اور خاموشی تھی اس دور میں گلگت بلتستان میں ایک بھی ہوائی اڈہ نہیں تھا نہ ہی ریڈیو، اخبار اور ٹی وی کی کوئی بھی سہولت موجود نہیں تھی دشوار گزار پہاڑی علاقہ دنیا سے بالکل کٹا ہوا تھا اس لیے کشمیر میں جاری اس 22اکتوبر 1947کی جنگ کے بارے میں عوام کو پتہ ہی نہیں چلا البتہ گلگت ایجنسی میں گلگت سکوٹس کے انگریز میجر الگزینڈر بروان کو اس جنگ کا پہلے سے ہی علم تھا۔ چونکہ تین جون 1947 کے منصوبہ تقسیم ہند کے تحت پاکستان،انڈیا کو آزادی دینے سے قبل ہی یکم اگست 1947 کو تاج برطانیہ نے گلگت ایجنسی کی لیس ایگریمنٹ کو ٹرمننٹ/ ختم کرنے کے بعد گلگت ایجنسی مہا راجہ ہری سنگھ کے حوالہ کیا تھا اور مہاراجہ نے اپنے کزن بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ جو ریاست کشمر کی فوج کا سینئر افسر تھا اسے گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کیا تھا۔جو گلگت میں اپنے عہدے پر براجمان تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کے دیگر دو حصوں یعنی آزاد کشمیر اور جموں وکشمیر میں جنگ جاری تھی لیکن گلگت بلتستان میں امن وامان قائم تھا ۔

جنگ کے حالات سے فایدہ اٹھا کر اسی دوران یکم نومبر 1947کو گلگت بلتستان کے گلگت سکوٹس کے مقامی آفیسران و جوانوں نے مقامی باشندوں کے ساتھ ملکر گھنسارا سنگھ کو گلگت میں گرفتار کیا اور آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیا۔اور 16دنوں تک ایک مکمل آزاد حکومت قائم کی۔
اور اس کے بعد پاکستان کے صوبہ سرحد کے نایب تحصیل دار محمد عالم خان نے یہاں کے معاملات کو  کنٹرول کیا۔ اور تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد حکومت پاکستان نے 28اپریل 1949کو آزاد کشمیر کے سردار محمد ابرہیم خان اور چودھری غلام عباس کے ساتھ معاہدہ کراچی کیا اور اس معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول حاصل کرلیا۔

اس کے بعد حکومت پاکستان نے اپنے سسٹم کے تحت ان علاقوں کے لیے پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیئے جو گلگت بلتستان پر حکومت کرتے تھے ان علاقوں کے باشندوں کو کوئی بنیادی جمہوری آئینی حقوق حاصل نہیں تھے نہ ہی گلگت بلتستان میں جمہوریت اور منتخب نمائندوں کا کوئی تصور موجود تھا۔ جبکہ دوسری طرف جموں وکشمیر اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو 1948میں جنگ بندی کے بعد سے تمام اختیارات و حقوق دیے گئے۔

جبکہ گلگت بلتستان میں موجودہ آرڈر 2009اور 2018کے تحت کچھ حقوق دیے گئے۔۔اور کچھ معاملات میں قانون سازی کے اختیارات بھی بظاہر دیے  گئے ، لیکن ایک کالونیل ٹائپ کی سیاست کرکے ان اختیارات کو ایک ہاتھ سے دیکر دوسرے ہاتھ سے بذریعہ وزیر اعظم پاکستان اور گلگت بلتستان کونسل کے غیر منتخب چھ پاکستانی ممبران کے ذریعے واپس لیے گئے جیسے کہGB order 2018کے آرٹیکل 60کے تحت جی بی کونسل کا چیرمین وزیراعظم پاکستان ہے اور 6ممبران پاکستان کے وزیر ہیں۔اور عوامی نمائندے وزیراعظم پاکستان کے مرضی کے برعکس کوئی بھی قانون سازی نہیں کر سکتے نہ ہی اسں آرڈر میں ترمیم کرسکتے ہیں۔نہ اس آرڈر کو سپریم اپیلیٹ کورٹ یا چیف کورٹ گلگت بلتستان میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

گلگت بلتستان میں اس طرح کی صورت حال جاری تھی کہ CPECکا منصوبہ آیا اور ستر سال سے اندھرے میں ڈوبے ہوئے اس علاقے کی اہمیت عالمی سطح پر بہت زیادہ بڑھ گئی۔
دنیا کے مختلف طاقتور ملکوں کے پارلیمان جیسے امریکہ و برطانیہ اور یوروپین پارلیمنٹ میں گلگت بلتستان کا نام لیا جانے لگا اور یہ علاقے عالمی ممالک کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

دوسری جانب دستاویز الحاق نامے کو بنیاد بنا کر انڈیا نے گلگت بلتستان میں بنائے جانے والے میگا پراجیکٹس پر عالمی سطح پر اعتراضات کرنا شروع کردیا نتیجتاً بھاشا دیامر ڈیم کے لیے عالمی مالیاتی ادارے بشمول ولڈ بنک نے قرضے دینے سے صاف انکار کردیا۔
بعض ماہرین بین الاقوامی امور کا کہنا ہےکہ گلگت بلتستان کے سٹیٹس کے متعلق ،”سرتاج عزیز کمیٹی” چین اور پاکستان کے سرمایہ دار طبقہ کے کہنے پر بنائی گئی تھی۔تاکہ ان علاقوں میں چین اور پاکستان کے سرمایہ دار طبقہ کے سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا جا سکے۔
گلگت بلتستان کے علاقے کو ایک لمبے عرصے سے بیکار سمجھ کر چھوڑا گیا تھا ایک دم اس کی قیمت بڑھ گئی ۔اور پاکستان کے امیر طبقے کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کا آئینی اور قانونی مسئلہ حل ہو تاکہ وہ اس علاقے کے وسائل سے بھرپور فایدہ اٹھا سکیں۔اس لیے تو گلگت بلتستان آرڈر 2018کے آرٹیکل 2bمیں خصوصی طور پر ترمیم کرکے اپنے لیے شہریت کا دروازہ کھولا گیا ہے۔

جبکہ گزشتہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان کے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمارا  سٹیٹس کیا ہے؟

اس سوال کی  بنیادی وجہ یہ  ہے  کہ گزشتہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے ۔لیکن پاکستان کے وفاق کے زیر  انتظا  م ہے  البتہ پاکستان اس کو اپنی  شہ رگ کہتا ہے،دوسری طرف انڈیا اسے اپنا اٹوٹ انگ انگ کہتا ہے ۔
تیسری طرف کشمیری گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا نہیں بلکہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں۔

یہ آسان سا سوال جو گلگت بلتستان کے 20لاکھ لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق سے متعلق ہے اتنا مشکل کیوں ہے ؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان سابقہ   ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے ، لیکن پاکستان کے زیرِ انتظام ہے  ۔
گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئین میں شامل کرکے صوبہ کیوں نہیں بنایا جاسکتا ہے؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کی حیثیت میں کوئی تبدیلی کرتے ہیں تو اسے مسئلہ کشمیر متاثر ہوتا ہے ،اور اقوام متحدہ کی  قراردادوں کے مطابق جموں وکشمیر کا مستقبل کا فیصلہ پاکستان اور انڈیا نے نہیں کرنا  ہے بلکہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام نے بذریعہ استصواب رائے اس بات کا فیصلہ کرنا  ہے  کہ انھوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا  ہے  یا انڈیا کے ساتھ الحاق کرنا  ہے ۔

دوسری بنیادی وجہ اگر پاکستان اپنی مرضی سے یکطرفہ طور پر گلگت بلتستان کو اپنے آئین میں شامل کر کے صوبہ بناتا  ہے  تو اس ایکٹ سے ریاست جموں وکشمیر پر UNO کی جو ریزولوشنز ہیں ان کی خلاف ورزی  ہوگی، اسی سوچ کی وجہ سے گکت بلتستان کو پاکستان کے 1956,اور 1962کی طرح 1973کے آئین میں بھی شامل نہیں کیا گیا  ہے۔

کشمیر کی پہلی جنگ کے دوران جب مہاراجہ کشمیر نے 26اکتوبر 1947میں انڈیا کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ الحاق نامے میں دستخط کیے تو پھر اس مسئلہ کو انڈیا کے اس دور کے وزیراعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو UNOلیکر گئے۔
اور NNCIPکے قراردادوں میں ریاست جموں و کشمیر بشمول کلگت بلتستان کو متنازع علاقے قرار دیا گیا ھے اور Plebisciteکے ذریعے اس مسلئے کا حل دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر میں پاکستان انڈیا کے درمیان جنگ بندی کروانے کےبعد اپنے ملٹری اوبزرور مقرر کئے گئے جو کہ منقسم جموں وکشمیر کے تینوں حصوں میں UNMOGIPکے نام سے دفاتر کھول کر آج تک موجود ہیں۔ اور مختلف وجوہات کی وجہ تاحال رائے شماری نہیں ہو سکی، البتہ پاکستان انڈیا میں مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہونے کے باوجود بھی مسئلہ کشمیر بدستور حل طلب  ہے۔

اس لیے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا دیا گیا تو UNکے ریزولوشن کے ساتھ تصادم میں آجائے گا۔
نواز شریف کی مقرر کی گئی سرتاج عزیز کمیٹی نے اس لیے مکمل صوبہ کے بجائے آئین پاکستان کے آرٹیکل 258کے تحت گلگت بلتستان کو صدر پاکستان کے ایک صدارتی فرمان کے تحت ایک عارضی خصوصی صوبہ بنانے کی شفارش کی تھی۔اور گلگت بلتستان کے تین ڈویژن گلگت، بلتستان اور دیامر کے لیے ایک ایک سیٹ پاکستان کی قومی اسمبلی میں دینے اور ایک ویمن سیٹ مختص کرنے کے ساتھ سینیٹ پاکستان میں بھی کل تین سیٹیں  دینے کی سفارش کی تھی۔البتہ تمام قومی اداروں بشمول NFCمیں بطور مبصر نمائندگی دینے کی سفارش کی تھی۔
مگر اس کمیٹی کے سفارشات کے برعکس گزشتہ دنوں 1999کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعث کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریمارکس میں یہ بات واضح کیا کہ
“گلگت بلتستان آئینی صوبہ تو دور کی بات عبوری آئینی صوبہ بھی نہیں بن سکتاہے۔ ”

پاکستان کی وفاقی حکومت نے بھی کورٹ کو بتایا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا نا ممکن نہیں ہے اسلیے وہ ارڈد 2018میں کچھ ترامیم کر کے عدالت میں پیش کرینگے۔
گلگت بلتستان کو صوبہ نہ بنانے والے مقتدر سکول آف تھاٹ کا واضح مؤقف یہ ہے ۔
گلگت بلتستان” ریاست جموں وکشمیر” کا حصہ تھا،ہے  اور ر ہے  گا, جب تک مسئلہ کشمیر استصواب رائے سے حل نہیں ہوتا۔ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا دیا گیا تو مسئلہ کشمیر ختم ہو جائے گا اور ہم یہ نہیں چاہتے ہیں۔
چونکہ قوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار نمبر 122 کے تحت کشمیر کا حتمی فیصلہ متنازع ریاست جموں اینڈ کشمیر کے عوام نے کرنا ہے جبکہ متنازع ریاست کے کسی بھی حصے کی اسمبلی کے پاس اختیار نہیں کہ وہ خود ریاست کی مستقبل کا فیصلہ کریں۔

اس سکول آف تھاٹ کو کشمیری قیادت خصوصاً انڈین زیر کنٹرول جموں و کشمیر کی لیڈر شپ بھی سپورٹ کرتی ھے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔
کیونکہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوششیں ان کے مقصد اور ستر سالوں کی جدوجھد کو متاثر کرنے کی وجہ بنے گا۔اور آزاد کشمیر کے لیڈرشپ بھی متفقہ طور پر اس موقوف کی تائید کرتی ہے۔

کشمیر میں گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کے بارے میں رو طرح کی رائے پائی جاتی ہے۔

ایک مکتبہ فکر کا کہنا ھے کہ گلگت بلتستان میں سٹیٹس کو بدستور برقرار رکھا جائے اور ان کے کچھ جمہوری حقوق ہیں تو ان کو دیں دو۔
بقول بیرسٹر حامد بھاشانی کے یہ درحقیقت ان لوگوں کی رائے ہے ، جو سیاست کے بارے میں زیادہ Literate نہیں  ہیں ،اور آئینی و قانونی مملات سے نابلد ہیں۔
اس لیے عام آدمی کی طرح کہتے ہیں کہ یہ کیا مسئلہ ہے ؟ہماری خواھش  ہےکہ گلگت بلتستان کو ایسے ہی رکھا جائے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ کیا چاہتے ہیں۔ بہرحال اکیسویں صدی میں یہ کوئی Intelligent opinion نہیں  ہے۔
کچھ لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بناؤ بلکہ آزاد کشمیر طرز پر ایک علیحدہ سیٹ اپ دے دو۔
اس سیٹ اپ کے تحت گلگت بلتستان کے لوگوں کے  جو کچھ بھی ان کے جمہوری حقوق ہیں وہ دیں ۔
آزاد کشمیر کی لیڈر شپ کا مطالبہ  ہے  کہ گلگت بلتستان کو ان سے زیادہ بڑھ کر اچھا سٹیٹس دیا جائے۔ البتہ اس حمایت کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ  ہے۔
اس کے جواب میں گلگت بلتستان کے لوگ کہتے ہیں کہ We are part of the Kashmir Dispute but we are not Kashmiris
کیونکہ ہمارا کلچر،رسوم رواج اور زبانیں مختلف ہیں۔اگر 1846میں مہاراجہ جموں وکشمیر اور تاج برطانیہ نے گلگت بلتستان پر قبضہ کر لیا تھا تو  اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے  کہ ہماری قومی شناخت بدل جائے ۔
تاج برطانیہ نے برصغیر پاک و ہند میں دو سو سال حکومت کی لیکن ان دو سو سالوں میں برصغیر کے باشندوں کی قومیت نہیں بدل گئی نہ ہی وہ انگریز بن گئے تو گلگت بلتستان کے لوگوں کی قومی شناخت کیسے بدل سکتی ہے؟
گلگت بلتستان کے لوگوں کو اگرچہ مسئلہ کشمیر کا حصہ بنایا گیا ھے لیکن وہ کشمیری نہیں بلکہ ہزاروں سالوں سے ان کی اپنی ایک علیحدہ قومی پہچان ہے ۔

مسئلہ کشمیر کے بہانے سے گلگت بلتستان کے لوگوں کو زیادہ دیر تک ان کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔

اگر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر متاثر ہوتا ہے اور کشمیر پر پاکستانی ریاست کے Long standing narrativeمیں اگر دراڈ پڑتی  ہے تو اس صورت گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے میں کیا قباحت ہے ؟

کیونکہ اب گلگت بلتستان کے اندر موجود گزشتہ ستر سالوں کی احساسں محرومی کا خاتمہ اور یہاں کے لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی طور پر دو ممکنہ آپشن بچتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔”

1. آئین پاکستان کے آرٹیکل 258کے تحت
جی بی آرڈر 2018 میں ترمیم کر کے گلگت بلتستان میں نافذ کیا جائے، جس کے آثار گلگت کے سیاسی فضا میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔بس تقدیر کا لکھا سمجھ کر اس پر چپ چاپ گزرا کرنا ہے، یا پھر ایک قوم ایک آواز بن کر پرامن طریقے سے دوسرے  آپشن یعنی
2۔کشمیر طرز کاسیٹ آپ کے قیام کیلئے متفقہ طور پر مطالبہ کیا جائے جو کہ آئین و قانون کے مطابق ممکن  ہے۔
اور مطالبہ کیا جائے کہ وہ تمام حقوق گلگت بلتستان کے لوگوں کو دیا جاۓ جو کسی بھی جمہوری ملکوں کے لوگوں کو دیئے گئے ہیں۔اور یہاں کے مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں کی اونرشپ کا حق دیا جائے۔
مقامی عوام کے منتخب نمائندوں کو اپنے معملات کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔
دفاع،کرنسی ،کمیونیکیشن اور فارن پالیسی کے علاؤہ دیگر تمام مملات پر قانون سازی کرنے کے مکمل اختیارات گلگت بلتستان کے منتخب نمایندوں کو دیئے جائیں۔

اگر اس کے بعد بھی گلگت بلتستان پر پاکستان، انڈیا اور کشمیر یوں کا دعویٰ چلتا ہے تو چلتا رہے۔
جسے دنیا کے کئی علاقوں پر تنازعے ہیں اور مختلف ممالک کے درمیان دعویٰ چلتے رہتے ہیں۔
اس طرح کی ایک بہترین مثال China v.s Tiwan کی  ہے۔
چونکہ تنازع کشمیر کے نام پر ہمیشہ کے لئے لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی و جمہوری حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا  ہے ، اور یہ کہنا کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک آپ کو کچھ نہیں مل سکتا سوائے آرڈرز کے اس طرح کی سوچ اور پالیسی سے منفی اور خطرناک نتائج نکلنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔

اس لیے گلگت بلتستان کے لوگوں کو مکمل بنیادی انسانی جمہوری حقوق دینے کا یہ واحد حل ہے ، کہ گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔
اس سے کسی کو کوئی اعتراض اور تکلیف نہیں ہوگی ۔گلگت بلتستان میں موجود بے چینی اور سماجی اجنبیت کا بروقت خاتمے ہونے کے ساتھ ان کی شناخت کا مسئلہ بھی حل ہو گا۔
کشمیر کے لوگ بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتے چونکہ وہ خود اس طرح کے نظام سے بھرپور فایدہ اٹھا رہے  ہیں۔
ریاست پاکستان کا بھی کوئی نقصان نہیں ھوگا چونکہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے کے باوجود بھی گلگت بلتستان بدستور ان کے پاس ہی رہے  گا، خصوصاً گلگت بلتستان کی دفاع ،کرنسی ،کمیونیکیشن اور فارن افیئرز پاکستان کے پاس ہی ر ہیں گے  البتہ لوکل اتھارٹی کے تحت گلگت بلتستان کو داخلی خود مختاری ملے گی جو کہ آقوام متحدہ کی کشمیر پر پاس کی گئی قراردادوں کے عین مطابق ہے جن کے تحت حکومت پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل چاہتی ہے۔چونکہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل سے پہلے اپنے ساتھ آئینی اور مکمل طور پر ملانا ناممکن ہے “۔

مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست پاکستان کا یہ اصولی موقف ہے  جس کا واضح ذکر آئین پاکستان میں کیا گیا ہے.
ارٹیکل 257 آئین پاکستان. ریاست جموں و کشمیر سے متعلق حکم. جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے۔
اس لیے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا سٹ اپ دینے سے مسئلہ کشمیر کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا نہ ہی متنازعہ ریاست جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ کیونکہ ان قراردادوں میں بھی لوکل اتھارٹی کی سفارش کی گئی ہے ۔
اور اس طرح کی لوکل اتھارٹی کی حکومت جموں وکشمیر و آزاد کشمیر کو 1948 میں ہی دیا گیا ہے  اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک قابل قبول قانونی حل ہے جس سے اقوام محدہ کی قراردادوں کے مطابق نہ تو پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر اصولی موقف کمزور پڑتا ہے نہ ہی کشمیر کاز کو کوئی نقصان ہوتا ہے بلکہ گلگت بلتستان کو داخلی خودمختاری دینے سے کشمیر کاز پر ریاست پاکستان کا اصولی موقف مصْبوط ہوتا ہے اور جب تک مسلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تب تک کے لیے یہ ایک بہترین حل ہے.
چونکہ گلگت بلتستان کو کشمیر طرز کے سٹ اپ دینے سے تنازعہ کشمیر کا ایک فریق انڈیا کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ اسے اعتراض صرف گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے سے ہے ۔
گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر جیسا نظام دینے سے آر پار کے کشمیریوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ وہ خود اس طرح کے نظام سے اپنے اپنے حقوق لیکر مزے سے خود اپنے م معاملات چلا رہے ہیں اس طرح داخلی خود مختاری دینے گلگت بلتستان کے عوام کی ستر سالہ محرومیوں کا بھی ازالہ ہوگا.
اس لیے یہ کہنا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا ہے  گلگت بلتستان کو آرڈرز ہی ملتے رہیں گے یہ بات بالکل بچکانہ ہے۔

اور آخر میں تنازع  کشمیر کو پس پشت ڈال کر گلگت بلتستان کو ریاست پاکستان کے اصولی موقف سے ہٹ  کر پھر بھی اگر کوئی دوست صوبہ بنا سکتا ہے تو اس اچھے کام میں اتنا تاخیر بھلا کیوں؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

البتہ کوئی بھائی اگر آرڈر پر آرڈر کی حمایت کرتاہے  تو مت بھولنا کہ آرڈر اور ڈنڈے کا چولی دامن کا ساتھ ہے .

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply