غریب چپس بھی نہ کھائے؟۔۔۔سید مہدی بخاری

دن تو سارا راولپنڈی کے علاقے ڈھوک حسو میں کام کے سلسلے میں بیت گیا۔ شام ہونے آئی  تو فیلڈ ورک آف کر کے لاہور کی جانب نکلا۔ ہلکی بھوک ستا رہی تھی۔ آئی جے پی روڈ چڑھنے سے پہلے ایک ریڑھی والا نظر  آیا، جو آلو کے بیسن والے چپس فرائی کر رہا تھا۔ یہ چالیس پینتالیس سالہ شخص تھا۔ میں نے سوچا فی الحال بھوک بہلانے کو یہ اچھا رہے گا۔ گاڑی کی بریک ریڑھی کے عین سامنے لگائی۔ شیشہ نیچے کیا اور بولا ” چاچا، بیس روپے کے بھیج دو”۔

چچا نے مجھے ایک بار گھور کے دیکھا، پھر میری گاڑی کو گھورنے لگا۔ میں اسے دیکھ رہا تھا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ دیکھتے دیکھتے وہ ریڑھی چھوڑ کے ڈرائیونگ سیٹ کی جانب آیا۔ میں نے شیشہ نیچے اتار دیا۔ چاچا پنجابی میں بولا ” باؤ! گڈی تے تیرے حلیے توں لگدا اے کہ توں کدی آلو آپ نئیں خریدے ۔۔۔ یا فیر توں چن توں اُتریا ایں۔۔۔ باؤ آلو دا آج دا ریٹ 130 روپے کلو سی۔ توں کہہ ریا ایں 20 روپے کے چپس دے دیو۔ باو جی، آلوں نوں ویسن وی لگدا اے تے تیل وی۔ توں دس 20 روپے دا کیہ  آنا اے ؟ اونج جے تینوں بھک لگی اے تے تھلے اتر آیا تے جنے مرضی کھا لے”

یہ سن کر میری ہنسی پھوٹ پڑی۔ میں نے اسے کہا اچھا چاچا ہلکی پھلکی بھوک تھی میں نے سوچا کہ 20 کے کافی ہوں گے۔ چلو ایسا کرو سو روپے کے دے دو۔ اس نے سن کر کہا ” جے بھک گھٹ اے تے فیر 50 دے لے لو”۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا چلو چچا جیسے تمہاری مرضی 50 کے کر دو۔

چپس لے کر چلا۔ گاڑی آئی جے پی روڈ پر آئی۔ ابھی پہلا چپس ہی منہ میں رکھا تھا کہ سامنے ایک بڑا سا بل بورڈ نظر پڑا جس پر حکمران جماعت کے چند عہدیداران کی تصاویر تھیں اور نیچے لکھا ہوا تھا ” اب بدلے گا پاکستان”۔ بورڈ پڑھتے اور چہرے دیکھتے ہی میرے حلق میں چپس پھنس گیا۔ ایکدم غوطہ سا لگا۔ کھانسی کا دورہ پڑا تو میں گاڑی سائیڈ پر لگا لی۔ ایک چھوٹا سا ڈھابہ نما کولڈ ڈرنک کارنر وہاں نظر آیا۔ پانی کی بوتل لینے اُترا۔ اس نے مجھے ایک گمنام سے برانڈ کی بوتل دی اور پیسے پوچھنے پر بولا “35 روپے”۔ میں نے اسے کہا کہ بھائی 30 کی تو نیسلے ملتی ہے یہ بے نام سی سادہ پانی کی بوتل 35 کی کیسے؟۔

اس نے مجھے ایک نظر غور سے دیکھا اور بولا ” بھائی جان! مہنگائی کا حال آپ کے سامنے ہے۔ اب تو اس کھوکھے کا کرایہ بھی پورا نہیں ہو پاتا۔ آلو 120 روپے کلو ۔۔”ابھی وہ باقی ریٹ بھی سنانے لگا تھا کہ میں نے آلوؤں کا ذکر سنتے ہی 35 روپے فوری اس کے کاؤنٹر پر رکھے اور چلتا بنا۔

ڈھائی گھنٹے گاڑی دوڑاتے بھیرہ قیام و طعام آیا۔ وہاں کچھ دیر کو رکا تو ایم سی بی سے کال آ گئی۔ بینک کو مجھ سے اپنے سالانہ کیلنڈر کے لئے تصاویر چاہئیں  ۔ کال کرنے والے پرانے مداح اور مارکیٹنگ کے ہیڈ تھے۔ جب میں نے پرائس بتائی تو زبیر صاحب ہنستے ہوئے دبے لفظوں  میں بولے ” بخاری صاحب پچھلے سال تو یہ پرائس نہیں تھی، ہم تو آپ کے ریگولر کلائنٹ ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سن کر میں نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا ” زبیر صاحب، اس سال آلو 130 روپے کلو تک پہنچ گئے ہیں  “۔۔۔ انہوں نے جوابی قہقہہ لگایا اور ڈیل ڈن ہو گئی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply