بھونڈ کی داستان۔۔سیّد مہدی بخاری

ڈیڑھ دو ماہ قبل کا ذکر ہے۔ ایک اہم کام سے لاہور ملتان موٹروے پر سفر کرتا ملتان جا رہا تھا۔ ننکانہ صاحب انٹرچینج کے قریب ڈرائیور سائیڈ کا شیشہ ڈاؤن کیے سگریٹ پی رہا تھا کہ اچانک ایک جہازی سائز کالا سیاہ بھونڈ گاڑی کے اندر آن داخل ہوا اور میرے سامنے ونڈ سکرین کے پاس منڈلانے لگا۔ اتنا بڑا بھونڈ آج تلک زندگی میں نہ دیکھا تھا۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ سانحے کا ادراک ہونے اور جہازی سائز بھونڈ کو نہ صرف دیکھنے بلکہ اس کی ہیلی کاپٹر جیسی “بھیں بھیں” سننے کے بعد میری نس نس، روں روں، خلیے خلیے میں سنسنی پھیل گئی۔ ایسی دہشت طاری ہوئی کہ زبان سے بائی ڈیفالٹ حالت لاشعور میں  گالی نکل گئی ۔

مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آئی میں نے گاڑی موٹروے کی آخری لین میں لا کر یکدم بریک دبا دی۔ گاڑی رکتے ہی میں نے برق رفتاری سے دروازہ کھولا اور گاڑی سے باہر نکل گیا۔ سلگتا ہوا سگریٹ اس سارے سانحے کے دوران پتہ نہیں کہاں ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ باہر نکل کر کچھ اوسان بحال ہوئے۔دیو ہیکل بھونڈ گاڑی کے اندر منڈلا رہا تھا۔ اس کو جب سکون سے بغور دیکھا تو پھر زبان سے نکل گیا “اوئے تیری پین دی”۔ شکر ادا کیا کہ اس بھونڈوں کے قبیلے کے سردار نے ڈنگ نہیں لیا۔ مجھے پریشانی لگ گئی کہ کسی طرح یہ گاڑی سے باہر نکلے تو جان میں جان آئے اور میں سفر جاری رکھوں۔ ترکیب یہ سجھائی دی کہ گاڑی کے چاروں دروازے ایک ایک کر کے کھول دوں تا کہ یہ کسی راہ سے واپس تو نکل پائے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے گاڑی کے قریب ہو کر ہولے ہولے اس کے چاروں دروازے اور ڈکی کھول دی۔

کچھ دیر ایسے ہی تذبذب میں ادھر ادھر ٹہلتے گزر گئی۔ بھونڈ گاڑی میں منڈلاتا رہا مگر باہر نہیں نکلا۔ اس کی “بھیں بھیں” مسلسل مجھ تک گاڑی سے باہر پہنچ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد آواز آنا بند ہو گئی تو میں نے قریب ہو کر دیکھنا چاہا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ڈرائیور کی پچھلی سیٹ پر بچوں نے کوئی میٹھا شیرہ ٹائپ یا کچھ جیم جیلی ٹائپ گرایا ہوا تھا اور بھونڈ اس سیٹ پر اس کے اوپر سکون سے جا بیٹھا تھا۔ میں نے یہ منظر دیکھ ذہنی کوفت کا شکار ہونا لگا۔ گاڑی سے باہر نکلے پندرہ منٹ بیت چکے تھے۔

آخر ذہن میں ترکیب آئی کہ ڈکی میں دھرا گاڑی صاف کرنے والا مائیکرو فائبر کپڑا جو قدرے وزنی یا بھاری بھی ہوتا ہے، وہ لوں اور اس بھونڈ کے اوپر پھینک دوں۔ پھر جب یہ اس کے نیچے دب جائے تو اوپر سے کوئی بھاری شے دے کر اسے شہید کر دیا جائے۔ میں نے پہلے سے کھلی ہوئی ڈکی سے سامنے پڑا وہ کپڑا اٹھایا۔ جیسے ہی اس بھونڈ پر پھینکنے کی باری آئی تو خیال آیا کہ بیچارے کو جان سے کیوں مار رہا ہوں، مخلوق ہے یہ بھی۔ کھڑے کھڑے سوچا کہ اس کو کپڑے سے ڈرا کر اڑاتا ہوں یہ شاید گاڑی سے باہر نکل جائے۔

میں نے کپڑے کو ایک کونے سے تھاما اور جھاڑ پونچھ کرنے کے انداز میں سیٹ پر مارتے ہوئے منہ سے نجانے کیوں “ہش ہش” کی آواز نکالی حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ یہ بھونڈ ہے کوئی کتا تو نہیں جو “ہش ہش” سمجھ جائے گا۔ صاحبو، جیسے ہی اسے کپڑے کا دوسرا کونا لگا وہ خبیث بھونڈ اڑا اور میرے بازو کے اطراف ہو گیا۔ ڈر کر میں کپڑا چھوڑ کر بھاگا۔ وہ گاڑی سے نکلا اور کچھ دور تک میرے ساتھ ہی اڑا۔۔۔ پھر وہ خبیث بھونڈ مجھے چھوڑ کر واپس گاڑی میں داخل ہوا اور اسی جگہ سیٹ پر جا بیٹھا۔

اس غیر متوقع  دہشت ناک اچانک حملے سے مجھے اب انتہائی غصہ آنے لگا۔ میرا بلڈ پریشر چڑھنے لگا۔ میں رفتہ رفتہ واپس گاڑی کے قریب آیا اور اس بھونڈ کو دیکھ کر دل ہی دل میں کئی گالیاں نکال دیں۔ کچھ کوس کوس کر دل کا غصہ ماند پڑا تو بے بس ہو کر میں نے سگریٹ سلگا لیا اور بھونڈ کی رخصتی کا انتظار کرنے لگا۔ ادھر ادھر ٹہل کر سگریٹ پیتا رہا۔ آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔

کبھی بھونڈ کو دیکھتا کبھی خود کو کوستا کافی وقت بیت گیا۔ اتنے میں موٹروے پولیس کی گاڑی آئی اور میری گاڑی کے پیچھے آن رکی۔ اندر سے خاتون لیڈی آفیسر نکلیں۔ انہوں نے باہر نکل کر مسئلہ دریافت کرنا چاہا اور مسئلہ سن کر وہ دھیما سا مسکرائیں اور پھر آنکھوں دیکھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر ہنسنے لگیں ۔ پھر ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہنے لگیں کہ آپ کسی سٹک وغیرہ کو دیکھیں اس سے اڑا دیں۔ میں نے جواب عرض کیا ” میڈم ! اڑانا چاہا تھا یہ ہے تو بھونڈ مگر کتے کی طرح پیچھے پڑ گیا تھا اور مجھے دور بھگا کر پھر واپس گاڑی میں گھس گیا۔ نیز میڈم میں فنکارانہ مزاج کا انسان ہوں یعنی نازک مزاج سا۔ کتے اور بھونڈ سے مقابلہ نہیں کر سکتا ویسے تو کوہ ہمالیہ بھی چڑھ سکتا ہوں اور جن بھوتوں کے آگے بھی ڈٹ سکتا ہوں”۔۔۔ میڈم نے سن کر قہقہہ لگایا اور بولیں ” میڈم نہیں، مس ” ۔۔ یہ سن کر میں نے توجہ سے ان کو مسکراتے دیکھا۔ سلم سمارٹ، کھلتا ہوا چہرہ، ہلکی سی لپ اسٹک، مناسب قد و قامت۔ بھلی لگ رہی تھیں۔ مس ۔۔۔

مجھے کہنے لگیں ” آپ کے پاس کوئی سپرے وغیرہ نہیں گاڑی میں ؟ مچھر مار سپرے ؟ “۔ جواب عرض کیا ” مس ، ائیر فریشنر موجود ہے بس”۔ سن کر بولیں ” وہ دیں، اس پر پرفیوم چھڑک کر دیکھتے ہیں۔ شاید کیمیکل سے کچھ اثر ہو تو یہ اڑ جائے”۔ میں نے کمال مردانگی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ہولے ہولے ، چوکنے انداز میں، ایک آنکھ پچھلی سیٹ کی جانب اور ایک ڈیش بورڈ سٹوریج باکس کی جانب مبذول رکھتے ہوئے ائیر فریشنر سپرے نکال لیا۔ انہوں نے مجھ سے سپرے لیا۔ آگے بڑھیں، بھونڈ پر سپرے کیا۔ اچانک اس خبیث بھونڈ نے اڑان بھری۔ مس کی ڈر کے مارے ایسی چیخ نکلی کہ میرا دل لرز کر رہ گیا۔ وہ جھٹکا کھا کر یکدم پیچھے ہٹیں۔ میں دو قدم بھاگ کر سائیڈ پر جا کھڑا ہوا۔ بھونڈ واپس بیٹھ گیا۔

مس نے اپنے خطا ہوئے اوسان پر قابو پایا اور بولیں” میں دوسری پٹرولنگ گاڑی کو بلاتی ہوں۔ میرا کولیگ شاید مدد کر سکے”۔ ایسا کہتے انہوں نے موبائل نکالا اور کچھ ٹائپ کرنے لگیں۔ میں نے ان سے از رہ مزاح عرض کی ” مس! یہ ایلیٹ فورس کا کام لگ رہا ہے۔ ہائی وے پٹرولنگ کے بس کا نہیں۔ ایک گھنٹہ ہو گیا مجھے، اس بھونڈ نے سڑک پر لا کھڑا کیا ہوا ہے۔ آپ 911 پر کال چلا دیں”۔ وہ حسب معمول مسکرا دیں اور اپنی گاڑی کے پاس جا کر اس سے ٹیک لگا کر موبائل میں بزی ہو گئیں۔

میں تھوڑے فاصلے پر سگریٹ پیتا گشت کرتا رہا کہ آخر یہ کیا ماجرا پیش آ گیا ہے۔ مس مجھے دیکھ دیکھ کر ہنس دیتیں اور پھر موبائل میں بزی ہو جاتیں۔ جب تین چار بار ایسا ہوا تو یکدم میرے ذہن سے دو تین گمان گزر گئے۔ اوّل خیال تو یہ آیا کہ یہ جو مجھے دیکھ کر مسکرا پڑتی ہیں کہیں ان کو یہ تو نہیں لگ رہا کہ یہ وہ والا آرٹسٹ ہے جو طبلہ یا چمٹا بجاتے ہیں۔ تعارف تو اپنا بس ایسا ہی کروا دیا تھا۔ پھر ذہن نے جواب دیا کہ نہیں نہیں، ایسا کیسے لگ سکتا ہے۔ رے بین کی عینک، برینڈڈ پینٹ شرٹ پہنے حال حلیے سے تو سوبر ہی لگ رہا ہوں۔ پھر دوسرا خیال آیا کہ اوہ یہ کہیں مجھے وہ آرٹسٹ نہ سمجھ رہی ہوں جو ثقافتی طائفے یعنی ڈانس گروپ دوبئی لے کر جاتے ہیں۔ ان کا حال حلیہ سیٹ ویٹ ہی ہوتا ہے۔ یہ سوچتے ہی میں نے رے بین گلاسز شرم کے مارے اتار دیئے اور سوچا کہ ان کو اپنا تفصیلی تعارف کروا دوں۔ نامعلوم یہ میری ایسی نازک صورتحال میں مجھے کیا سمجھ رہی ہوں۔

چند قدم چلتا ان کے پاس گیا۔ ” مس، میرا نام سید مہدی بخاری ہے۔ میں فوٹوگرافر، ٹریولر اور رائٹر ہوں۔ آپ کہیں آرٹست سے یہ مراد نہ لے لیں کہ میں چمٹا بجاتا ہوں۔ بس صورتحال ایسی بن گئی ہے کہ شاید چمٹا بجانے والا ہی لگ رہا ہوں مگر بھونڈ کے آگے اچھے اچھوں کی بس ہو جاتی ہے”۔ مس نے سن کر کھل کر قہقہہ مارا اور بولیں ” ہاہاہاہاہاہا بخاری صاحب۔ بس کچھ دیر میں پٹرولنگ کار آ جاتی ہے۔ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا”۔۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا ” مس ایک گھنٹے سے میں سڑک پر ویلا کھڑا ہوں، آدھ گھنٹے سے آپ ویلی کھڑی ہیں۔ مصروف تو بس وہ خبیث بھونڈ ہے”۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ کہنا میں یہ چاہتا تھا کہ دونوں ویلے کھڑے ہیں تو ذرا کچھ کلومیٹر پر واقع قیام و طعام سے پٹرولنگ کار میں بیٹھ کر چائے نہ پی آئیں مگر چپ رہنا مناسب لگا۔ مس نے جواب دیا ” آپ جائیں گے تو میں جاوں گی ناں”۔ میں نے کہا ” مس ، وہ بھونڈ جائے گا تو میں جاوں گا ناں”۔ مس پھر چہرے پر ہاتھ رکھ کر مسکراتی رہیں۔

ان کا دیکھنا اور مسکرانا جاری رہا۔ کچھ منٹس یونہی اکھیوں اکھیوں میں ہنستے مسکراتے بیتے ہوں گے کہ سڑک کی دوسری سائیڈ پر ایک پٹرولنگ کار رکی۔ ایک جٹکا قسم کا پٹرولنگ آفیسر اترا۔ سڑک پار کی اور ہماری طرف آ گیا۔ یہ لمبا چوڑا گندمی مائل رنگت کا جوان تھا۔ اس نے ماجرا سنا۔ ہنسا اور جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے گاڑی کے قریب گیا۔ دیکھا تو بھونڈ جا چکا تھا۔ گاڑی خالی تھی۔ بھونڈ کا نام و نشان کہیں نہ تھا۔ شاید میں پٹرولنگ مس آفیسر کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول رہا تو اسی دوران وہ بھی اڑ کر جان چھوڑ گیا۔

مسئلہ حل ہوا تو نجانے کیوں دل اداس سا ہو گیا۔ جب میں ان دونوں آفیسرز کا شکریہ ادا کر کے چلنے لگا تو مرد آفیسر مجھے ذرا نہ بھایا۔ یوں لگا جیسے کالا بھونڈ تو زندگی میں ٹھیک مقام اور وقت پر آیا تھا مگر یہ چھ فٹا بھورا بھونڈ غلط ٹائم پر آ گیا۔ کیا تھا جو پٹرولنگ والا نہ آتا یا کچھ لیٹ ہی ہو جاتا۔ خیر اب چلنا تو تھا۔ گاڑی دوڑا دی۔ میوزک آن کر لیا۔ گھنٹہ بھر گاڑی چلا چکا تو اس واقعے کو ہی بھول چکا تھا۔ دھیان ٹریفک اور ادھر ادھر کے خیالوں میں لگ گیا۔ گاڑی میں غزلیں گونجتی رہیں۔

یکایک کیا دیکھتا ہوں کہ وہی کالا بھونڈ اسٹیئرنگ کے نیچے میری دونوں ٹانگوں کے درمیاں میری جینز کی پینٹ سے اڑ کر منڈلا رہا ہے۔ اس کی ہیلی کاپٹر جیسی “بھیں بھیں” آنے لگی جو پہلے سنائی اس لئے نہ دی کہ میوزک لگا ہوا تھا تو میں سمجھتا رہا کہ ٹویٹر یا سپیکڑوں سے جھنکار کی آواز ہے۔ ایکدم ویسے ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ منہ سے از خود پھر نکلا ” اوئے تیری پین دی”۔ میں نے گاڑی سائیڈ پر لگا کر باہر دوڑ لگا دی اور ایک بار پھر سڑک پر آ گیا۔۔۔

میں وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا مگر گمان غالب یہی ہے مس نے جو بھونڈ پر ائیر فریشنر چھڑکا تھا۔ اس کی وجہ سے شاید وہ نڈھال یا بیہوش ہو کر سیٹ سے نیچے کارپٹ پر جا ٹھہرا ہو گا اور بیہوشی ختم ہونے کے بعد اب پھر اس کو ہوش آ چکا تھا۔ وللہ علم کیا ہوا ہو گا مگر یہ تو کنفرم تھا کہ وہ گاڑی میں ہی تھا اور اب پھر ناکوں چنے چبوانے کو سامنے آ گیا ہے۔ انتہائی بیزار ہو کر میں نے گاڑی کا دروازہ پھر سے مکمل کھولنا چاہا کہ شاید یہ ترس کھا کر باہر ہی نکل جائے۔ جیسے ہی دروازہ کھولا اس خبیث نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ وہ گاڑی سے نکلا ، اڑتا ہوا میرے سر کے قریب آن کر بالوں میں گھسنا چاہا ۔ میں نے ڈر کر ہاتھ سے جھٹکا کہ کہیں سر پر ڈنگ ہی نہ مار دی۔ اس خبیث نے میرے بالوں پر پھر حملہ کرنا چاہا میں نے سرپٹ دوڑ لگا دی۔ میرے منہ سے “اوئے تیری پین دی” کے علاوہ نجانے کیا کیا نکلتا رہا، مجھے اب یاد نہیں۔ وہ پیچھے پیچھے سر کے اوپر اوپر اڑتا آ رہا تھا اور میں ہاتھ اوپر کئے اندھا دھند بھاگتا جا رہا تھا۔ بھاگتے بھاگتے اچانک وہ نظر سے غائب ہو گیا۔ اس کی “بھیں بھیں” بھی ختم ہو گئی۔ میں نے رک کر تسلی کرنا چاہی۔ اردگرد جائزہ لیا۔ وہ کہیں نہیں تھا۔ میں 2 منٹ ساکت کھڑا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلآخر یقین محکم پا کر کہ وہ خبیث کہیں کھیتوں کی سمت یا کہیں جا چکا ہے ،آس پاس کہیں نہیں ہے تو میرے ہوش ٹھکانے آنے لگے۔ حواس بحال ہوتے کچھ منٹس لگے۔ہوش آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گاڑی ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر کھڑی چھوٹی سی نظر آ رہی ہے۔ گاڑی تک کا سارا فاصلہ پیدل چلتے میں نے بھونڈ کو کتے کی طرح کوسا۔ اب شام ہو رہی تھی۔ لاہور سے نکلے 4 گھنٹے بیت چکے تھے مگر ذلالت کی معراج پر فائض ہو کر بھی ملتان ابھی 180 کلومیٹر دور تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply